ننگر ہار (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان میں نماز جمعہ کے دوران ایک حملے میں کم از کم باسٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ حملہ ایک سنی مکتیہ فکر کی ایک مسجد پر کیا گیا تھا۔
مشرقی افغان صوبے ننگر ہار کے گورنر کے ترجمان نے ایک سنی عقیدے کی مسجد پر کیے جانے والے حملے میں زخمیوں کی تعداد چھتیس بتاتے ہوئے کہا کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ اس حملے کے بعد سکیورٹی اہلکاروں نے مسجد کے قریبی علاقے کی نگرانی شروع کر دی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق جس وقت ننگر ہار کے علاقے حسکا مینا کی مسجد میں حملہ کیا گیا، اُس وقت تقریباﹰ 250 نمازی مسجد کے اندر موجود تھے۔ دھماکے کے بعد یہ مسجد شدید تباہی کا شکار ہوئی اور درجنوں افراد ملبے تلے دب کر رہ گئے۔
زخمیوں کو ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد کے ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ ایک مقامی کونسلر علی محمد نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کئی نمازی شدید زخمی ہیں۔ علی محمد کے مطابق مسجد میں ہلاک شدہ نمازیوں کا خون اور جسم مختلف حصے بکھرے پڑے ہیں اور انہیں سمیٹنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ مسجد پر حملہ کس عسکری گروپ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ ماضی میں عموماً ننگر ہار میں سرگرم ہوتی ‘اسلامک اسٹیٹ‘ نے شیعہ مساجد پر حملے کیے تھے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سنی مسجد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
مقامی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سنی مسجد پر کیے گئے حملے کے پس پردہ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اعتدال پسند اسلام کے خلاف ہے اور انتہائی سخت عقیدے کی ترویج چاہتی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ حسکا مینا کا علاقہ رواں برس تک اسی عسکریت پسند تنظیم کے زیر کنٹرول تھا۔
افغان طالبان کی جانب سے سنی مسجد پر کیے گئے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ طالبان نے اس حملے کو ایک بھیانک جرم سے تعبیر کیا ہے۔ یہ امر اہم ے کہ رواں برس کے دوران عام شہریوں کی ہلاکت کے پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
جمعرات سترہ اکتوبر کو اقوام متحدہ کے افغان مشن نے بتایا تھا کہ رواں برس کے ابتدائی نو مہینوں کے دوران مختلف حملوں اور مسلح واقعات میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد دو ہزار پانچ سو تریسٹھ تک پہنچ چکی ہے۔