نیشنل عوامی پارٹی کا سربراہ سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کا بیٹا عبدالولی خان تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی ایک قسم کی آل انڈیا کانگریس کی دم چھلہ بنی ہوئی تھی۔پاکستان بننے کے پہلے صوبہ سرحد میں آل انڈیا کانگریس کی حکومت تھی۔ شاید اسی لیے غفار خان کو سرحدی گاندھی کہا جاتاتھا۔ غفار خان افغانستان کے شہر جلال آباد میں بیٹھ کر پشتونستان کی تحریک چلا رہا تھا۔ قوم پرست افغانستان نے پاکستان بننے پر اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام سے وجود میں آیا تھا جبکہ قوم پرست صوبہ سرحد کو آزاد پشتونستان بنانے چاہتے تھے۔ ریفریڈم میں صوبہ سر حد کے اسلام پسند٩٩ فی صدعوام نے پاکستان کے ساتھ ملنے کے لیے رائے دی تھی۔یعنی قوم پرستی کو ٹھکرا دیا تھا۔پھر بھی ولی خان نے ہمیشہ قوم پرست افغانستان کے حکمرانوں سے تعلق رکھے۔ جیسے ہم پہلے بیان چکے ہیں کہ افغانستان میں روس کیمونزم پھیلانے میں کئی سالوں سے لگا ہوا تھا۔ اس نے دریائے آمو سے آگے افغانستان ، پاکستان بلوچستان اور پاکستان کے بعد گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنی تھی۔ ولی خان کے کارکن کیمونسٹ تھے بظاہر خدائی خدمت گزار تھے۔ ولی خان کے لوگ قوم پرستی کے ساتھ ساتھ کیمونزم کی طرف بھی مائل تھے۔ یہ سرخ پوش کہلاتے تھے۔ اب بھی سر پر سرخ ٹوپیاں پہنتے ہیں۔
افغانستان میں ان کے لوگ روس کے سفارت خانے سے ہدایت لیتے تھے۔ فریب ناتمام کتاب کے مصنف جمعہ خان صوفی نے اس کا نقشہ کچھ اس طرح بیان کیا۔دوسرے وہ پختون قوم پرست ہیں جو اسلام آباد میں ایک بات کرتے ہیں، پشاور اورکوئٹہ میںاپنے متوالوں کو دوسری باتوں سے بہلاتے ہیں اور کابل جاکر یکسر بدل جاتے ہیں۔کابل کے پختون بھی اپنے پختون عوام کو بھلانے کے لیے ایک چہرا پیش کرتے ہیں اور پاکستانی سرکاری مقامات کے ساتھ دوسری طرح کی بات کرتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کی اس طرح کرنے سے وہ افغانستان کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پختون عوام کو بھٹکاتے ہیں۔ فروری ٢٠١٦ء کے اوائل میں کابل میں تاجک برادری کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ افغان حکمران سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کے بننے کے ساتھ افغانستان نے وہاں جو بے جا مداخلت کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اسے ختم کیا جائے۔ ڈیورنڈ لائن نہ ماننے کی جو رٹ لگا رکھی ہے اسے جلد از جلدبند کیاجائے۔مگر لوگ ادھا سچ مان لیتے ہیں اور دوسرے آدھے سچ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔غفار خان اپنے کتاب (زماژونداوجد وجہد”میں لکھتے ہیں کہ پاکستان انگریزوں نے بنایا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے لوگ افغانستان میںانگریز کے بنائے ہوئے قانون ریڈ پاس کے ذریعے جاتے تھے۔ اجمل خٹک سیکر ٹیری نیشنل عوامی پارٹی کے خطوط ”پرچم پارٹی” کے اکابرین کے نام پہنچاتے تھے۔اس میں پشتونستان کے متعلق ہدایت اور باتیں ہوتیں تھیں۔اجمل خٹک کے ایلچی کو کابل میں سابق صدر افغانستان ڈاکٹر نجیب اللہ ویلکم کرتے تھے۔ اجمل خٹک نے اپنے ایلچی کے ہاتھ اپنی کتاب ”دغیرت چغہ” اور دیگر نظمیں بھیجیں جو بعد میں سیلمان لائق کو دی جاتیں تھی۔ڈاکٹر نجیب اللہ نیشنل عوامی پارٹی کے افغانستان جانے والے کارکنوں کو پرچم کے سارے اکابرین سے ملاقاتیں کراتے تھے۔
باچا خان دارلامان والی سڑک کے قیب رہائش پذیر تھے۔باچا خان سے نیشنل عوامی پارٹی کے کارکن ملتے جلتے تھے۔باچا خان نے پاکستان سے گئے ایک کارکن سے کیا کہ ”تمھارے دماغ میں تشدد ہے تشدد” شاید باچا خان نہیں جانتے تھے یا ان کی وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ اگلے برسوں یہی کارکن اسی باچا خان کے بیٹے ولی خان سربراہ نیشنل عوامی پارٹی کے حکم پر تشدد برپاہ کرنے کی خاطر اس افغانستان میں جلاوطنی اختیار کر لیں گے۔پاکستان سے گئے نیشنل عوامی پارٹی کے کارکن پر چم کے اہم لیڈروں سے ملتے تھے۔ جن میں ببرک کارمل، استاد میر اکبر، سلیمان لائق، نور احمد اور ڈاکٹراناہتا ، صداقت،حاجی نادرخان اوررشید وزیری شامل تھے۔
کابل کے قبائل مہمان خانے میں قبائل جنہیں پشتونستانی کہا جاتا تھا اس کارکن ملتے۔اس جگہ کوثر کے معیت میں پاکستان سے گئے پشتونستان کے کے کئی حامی مقیم تھے۔نجیب اللہ ان دنوں یونیورسٹی میں پر چم کے سٹوڈنٹ لیڈر تھے۔ مجید سربلند اور عبدلوکیل جو دہلی جارتھے اس سے اجمل خٹک کے حکم پر کارکن پشاور میں ملے تھے۔پھر اجمل خٹک نے ١٩٦٩ء میں کارکنوں کو بڑی تعداد میں ترقی پسند اور کیمونسٹ لڑیچر پشاور سے کابل پہنچا کر ر پرچم والے کو دیا گیا۔پرچم کے دفتر سے پشتونساتن کے متعلق شائع شدہ لٹریچر پشاور بھیج کر کارکنوں میںتقسیم کیا گیا۔ولی خان نے نیپ کا صدر بننے کے بعد فوری طور پر مشرقی پاکستان کا کامیاب دورہ کیا تھا۔ولی خان وہاں بنگالیوں کے ساتھ ساتھ پشتون بلوچ اور سندھیوں کے قومی اور صوبائی حقوق کے لیے ان کے ہم آواز ہو گئے۔بلوچستان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بننے کے بعد بلوچستان کے پشتون طلباء نے بسم اللہ کاکڑ اور دیگر کی و قیادت میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد ڈالنے کی کوششیں تیز کر دیں۔کابل میں ہر سال پشتونستان کا دن منایا جاتا تھا۔
جشن کابل کے موقعہ پر باچا خان ون یونٹ کے خاتمے اور پانچ صوبوں کی بات کرتا تھا۔ولی خان نے نیپ کے کارکنوں کو ١٩٥٧ء میں مسلم لیگ اور ریپبلکن پارٹی کی لیڈروں کی دستاویز جس میں جی ایم سید سے مفاہمت ہو گئی تھی دے کر سید مودودی،چوہدری محمد علی، بنگال میں مولوی فریداحمد اور نصراللہ خان کے پاس بھیجا تھا۔ولی خان نجیب اللہ کے دور حکومت میں پچاس ساٹھ گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ افغانستان جایا کرتے تھے ۔ مگر جب افغان طالبان نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ کیا تو ولی خان کا غرور بھی فاقہ کش افغان طالبان نے ختم کیا ۔ مقافات عمل ہے کہ جب افغانستان پر روسی حملے اورجارحیت کی وجہ سے پاکستان ہجرت کر آتے تھے تو یہاں ولی خان اور اس کی پارٹی کے لوگ، کیمونسٹ اور، قوم پرست ان لٹے پٹے مہاجرین کو بھگوڑے کہتے تھے۔
پاکستان میں جماعت اسلامی ہی تھی کہ جس نے انصار کا کردار ادا کیا اور ان کی آباد کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ منصورہ میں افغان سرجیکل ہسپتال قائم کیاجہاں زخمی افغان مجائدین کا فری علاج ہوتا تھا۔ اپنے کارکنوں کو بتایا کہ یہ پاکستان کی جنگ ہے جو افغان لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں نے اپنی افغان بھائیوں کے خون میں اپنا خون بھی شامل کیا۔جماعت اسلامی نے پوری دنیا کی ا سلامی تحریکوں کے کارکنوں کو افغان مجائدین کی مدد کے لیے لئے اُبھارا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے پوری اسلامی دنیا کے مجائد جہاد فی سبیل اللہ کے لیے افغانستان کی طرف آنے لگے۔ افغانستان میں جہادی کئی کیمپ قائم ہو گئے۔
جہاد ہی کی وجہ سے اللہ نے افغانستان میں روسی فوجوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ پاکستانی قوم پرستوں اور کیمونسٹوں کو شکست ہوئی۔ ہم نے اوپر نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے افغانستان سے مل کر پاکستان کے خلاف سازشوں کی داستان بیان کی ہے۔جو ولی خان کی سرپرستی میں کی گئی۔ بلآخر ولی خان نے افغانستان کے صدر سردار دائود خان کو پاکستان میں مداخلاف کر کے پشتونستان بنانے پر راضی کیا تھا مگر منہ کی کھائی تھی۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ولی خان جس پاکستان میں رہتے تھے جہاں سیاست کرتے تھے اس کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے تو آج پاکستان ترقی کی منازل طے کر چکا ہوتا۔ مگر قوم پرستی میں ایسا نہ کر سکے۔