امریکہ نے اسامہ بن لادن کا بہانہ بناکر نہ صرف افغانستان کو تہ و بالا کیا بلکہ لاکھوں انسانوں کو تہ تیغ کردیا ۔ امریکہ کو افغانستان سے وہی کچھ ملا جو روس کی حکومت کو ملا تھا۔ روس کی فوج کو شکست خوردہ اور شرمندہ ہوکر افغانستان سے جانا پڑا تھا۔ اسی طرح امریکہ 20سال تک طالبان کی مزاحمت کرتا رہا۔ اس کے ڈھائی ہزار سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے اور بے انتہا دولت افغانستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کیلئے پانی کی طرح بہایا۔ روس کی طرح امریکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو نہیں ہوا ہے لیکن اس کی معاشی ابتری دنیا کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ہی طالبان کی قوت و ہمت کے مقابلے میں امریکہ کی شکست پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے۔
امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو لگ بھگ بیس سال کا عرصہ دیا کہ وہ افغانستان کو اپنے بس میں کرلیں اور جیسا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں کرکے دیکھ لیں لیکن واضح دیکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی سوائے عمارتوں کی تعمیر اور تھوڑے بہت ترقیاتی منصوبوں کے سوا افغانستان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں لاسکے، آسان لفظوں میں یہ کہا جانا چاہیے کہ افغان سوچ کو قطعی نہیں بدل پائے ہیں اور سوچ کو بدلنے کے شوق نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے کہ انکی معیشت کو سنبھلنے میں کئی برس لگیں گے، یہاں اس گمان کوبھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے اپنی تاریخی شکست اور بدترین بے عزتی پر پردہ ڈالنے کیلئے دنیا کی ساری توجہ کورونا کی وباء پھیلاکر اس طرف مبذول کروانے کی ممکن حد تک کوشش کی ۔ بظاہر یا البتہ یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے جو تقریباً حرف عام بنی ہوئی ہے کہ افغانستان میں حفاظتی عملے یعنی افواج کو ترتیب دینے کیلیے بیس ارب ڈالر خرچ کئے گئے۔
امریکہ جو دنیا کی سب سے بڑی طاقت مانی جاتی ہے۔ طالبان کے پاس وہ ہتھیار، وہ ٹیکنالوجی جو امریکہ کے پاس ہے نہیں تھا اور ابھی بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود طالبان کے پاس وہ ایک ایسی چیز تھی جو امریکہ کے فوجیوں کے پاس نہیں تھی۔ وہ ہے روحانی اور اخلاقی طاقت اور اللہ تعالیٰ پر جو سب سے بڑی قوت کا مالک ہے اس پر مکمل اور غیرمعمولی بھروسہ۔ جو لوگ اسلامی تاریخ کا مطالعہ غیر جانبداری سے کرتے ہیں ان کو دنیا کے سب سے بڑے اسلامی انقلاب جو عرب میں برپا ہوا وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جو لوگ حق کے ساتھ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی پر اپنی کامیابی کا انحصار کرتے ہیں دیر یا سویر اللہ کی مدد اور نصرت ضرور آتی ہے۔طالبان نے کابل میں فاتحانہ داخلہ سے پہلے عام معافی کا اعلان کیا ۔ ان کے ترجمان نے کہا کہ عوام ، افغان حکومت کے عملہ اور کارندوں ، اتحادی افواج کے لیے کام کرنے والوں، سب کے لیے معافی ہے۔
عوام کے مال و جان کی حفاظت ہماری بنیادی ذمے داری ہے ان کا یہ پیغام سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نشر کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ مجاہدین خزانہ ، عوامی سہولیات ، سرکاری دفاتر اور آلات ، پارکس ، سڑکوں اور پل وغیرہ پر خاص توجہ دیں گے۔ یہ عوامی املاک ہیں ، ان کا تحفظ کیا جائے گا اور انہیں برباد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ آف افغانستان ان تمام افراد کے لیے اپنے دروازے کھولتی ہے جنہوں نے ماضی میں حملہ آوروں کے لیے کام کیا اور ان کی مدد کی ، یا جو اب بھی کرپٹ افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ہم ان کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ قوم اور ملک کی خدمت کے لیے آگے آئیں۔طالبان کیلئے ضروری ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ بتدریج کریں۔ امید ہے کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ اللہ نے انھیں ایک ایسا ملک دیا ہے جہاں اسلامی قوانین کے نفاذ کا موقع دیا ہے۔ اگر وہ قرآن و سنت کے مطابق بتدریج اسلام کے قانونِ تعزیرات کو لاگو کریں گے تو افغانستان کے لوگ اس کی برکت اور رحمت سے فیضیاب ہوں گے اور دنیا بھی ایسے قوانین کو پسند کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ اگر افغانستان کے لوگ امن اور سکون کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور فلاح و ترقی کی طرف قدم بڑھائیں گے اور جرائم جو دنیا میں انسانی قوانین کے ذریعے کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں اس کا خاتمہ کرنے میں کما حقہ کامیاب ہوں گے۔
افغانستان پر فتح حاصل کرنے کے بعد طالبان نے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں زرا بھی دیر نہیں لگائی جیسا کہ طالبان کے ذریعہ کیے گئے وعدوں میں سے ایک وعدہ یہ ہے کہ وہ افغانستان میں افیون کی کاشت پر پابندی لگائیں گے اور منشیات کی فیکٹریاں بند کروائیں گے۔17 اگست کو پہلی بار منظر عام پر آنے والے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان خواتین کو شریعت کی روشنی میں ان کے حقوق کی فراہمی کے لیے پرعزم ہیں، خواتین کام اور تعلیم حاصل کر سکیں گی۔جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا اور طالبان نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ فوج اور پولیس سمیت دیگر سرکاری اہلکاروں سمیت اپنے خلاف لڑنے والے تمام افراد کو معاف کرتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے دیگر ممالک کی حکومتوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ افغانستان میں ان کے سفارت خانے، سفارتی عملہ اور نجی و سرکاری تنظیمیں محفوظ رہیں گی۔ ایک روسی سفارتی اہلکار کا کہنا ہے کہ سابقہ انتظامیہ کے مقابلے میں افغانستان میں امن و امان کی صورتحال اب پہلے سے کہیں بہتر ہے۔دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کا بنیادی اور سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ طالبان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔