افغانستان نے ہمارے لیے کیا کیا

Afghanistan

Afghanistan

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

2010 کی طرح 2019 شب برات کی شام مصدقہ اطلاع تھی افغانستان سے خود کش بمبار سات مئی کو نواز شریف کو جیل پہنچانے تک داتا دربار ایریا کو ٹارگٹ کرنا ہے ان حالات کے پیش نظر اپنے نام تین سمز رجسٹر سے 27 مئی 2010 کی طرح داتا دربار حاضری دی 28 مئی 2010 دہشت گردوں نے لاہور جمعہ کی نماز کے دوران جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ کو ٹارگٹ کر دیا یاد رہے کہ دہشت گرد چودہ دسمبر 2003 کو بھی افغانستان سے آئے تھے دہشت گردوں نے سابق صدر پرویز مشرف کے قافلے کے راستے کا پل بلاسٹ کر دیا تھا جس میں صدر مشرف بال بال بچ گئے تھے نواز شریف نے اپنے آخری چار سال سی آئی اے کے اشتراک سے افغانستان داعش کو بہت مضبوط کیا ۔یہ حامد میر اس اشتراک کا ثمر ہے جو آج کھل کر حکومت اور فوج کو دھمکیاں دے رہا ہے اور وہ تمام نام نہاد صحافی جو راتوں رات اربوں کھربوں کے مالک بن گئے آج کیوں ڈرگ مافیا کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ سی آئی اے کی اپنی ضروریات ڈرگ مافیا پوری کرتا ہے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کیا امریکہ اپنے ملک میں اس طرح مافیاز کو کھل کھیلنے کا موقع دے سکتا ہے ؟جس افغانستان کو فتح کرنے کے لیے اس نے پوری دنیا کو زیر و زبر کر دیا وہ وہاں صرف پاکستان کے دشمن کیوں پال رہا ہے اور پاکستان کا ہر غدار امریکہ اور برطانیہ میں کیوں پناہ لیتا ہے کیا کبھی پاکستان نے امریکہ ،یا برطانیہ کے دشمنوں کو پناہ دی ؟یہاں سے تو وہ اپنا ریمنڈ ڈیوس بھی چھڑا کر لے جاتے ہیں جو دن دیہاڑے ہمارے تین شہری مار گیا سپر پاور اور دنیا کے بڑے بن بیٹھنے والوں کی اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ اب رانا ثنا اللہ کی اہلیہ نے بھی اقوام متحدہ سے رجوع کر لیا ہے جو درجنوں لوگوں کا قاتل ہے اور نئی نسل کی نسوں میں زہر اتارنے کا زمہ دار جس کے جرائم کی فہرست فیصل آباد کے ہر مکین کو زبانی یاد ہے اس سے پہلے افغانستان کی پاکستان کے لیے خدمات پڑھ لیں پچھلے دنوں ورلڈ کپ میچ سیریز میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان میچ کے دوران جو کچھ ہوا جس طرھ افغانوں کی طرف سے پاکستانی شائقین پر تشدد کیا گیا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔

شاہد خان نے اس پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں ،پی ٹی ایم ،بضد ہے کہ میچ میں اگر افغانیوں نے چند پاکستانیوں کو مار بھی دیا تو کون سی قیامت آ گئی پاکستان اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے جو اس نے افغانستان میں آج تک کیا کوئی ان سے پوچھے پاکستان نے کیا یا افغانستان نے کیا؟ آئیں آج آپ کو اس کا تسلی بخش جواب دیں
30ستمبر1947کو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا ستمبر 1947میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ ،پشتونستان ،کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی 47میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی قائد اعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا 1948میں افغانستان نے ،قبائل ، کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا 48میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ بنے ۔۔۔۔۔ 1949ء میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی 12اگست 1949کو فقیر ایپی نے باچاخان کے زیر اثر افغانستان کی پشتونستان تحریککی حمایت کا اعلان کیا افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا 31 اگست 1949 کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچا خان اور مرزا علی خان عرف فقیر ایپی دونوں نے شرکت کی۔

اس جرگے میں ہر سال 31اگست کو یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیا اسی جرگے میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949میں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاذ کیا اس کے جنگجو گروپ کا نام غالبا ”سرشتہ گروپ تھا ” ان کی دہشت گردانہ کاروائیاں وزیرستان سے شروع ہو کر کوہاٹ تک پھیل گئیں ،(کچھ غدار کہتے ہیں دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے اس وقت کون سی وردی تھی؟ایک نوزائیدہ مملکت کو ابتدا ہی سے غداروں کے زریعے نشانہ بنا لیا گیا اللہ برے ہمسائے سے بچائے )فقیر ایپی نے چن چن کر ان پشتون عمائدین کو قتل کیا جنھوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی اسی سال افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیاء کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا جس کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔جو افغان حکومت کی درخواست پر واپس کر دیے گئے کچھ عرصہ یہ دبکے رہے 1954میں فقیر ایپی کے گروپ کمانڈر ،مہر علی ، نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔

اس سے پہلے 1950میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے ستمبر 1950میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کر دیا جس کا مقصد چمن تا کوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا ایک ہفتے تک پاکستانی اور افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغانی فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہو گئی اس واقعے پر وزیر اعظم لیاقت علی نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا 16اکتوبر1951کو ایک افغان قوم پرست ،سعد اکبربیرج مردود نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کر شہید کر دیا لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا جو افغان حکومت کے ایما پر ہوا اس طرح افغانستان ہی پاکستان میں دہشت گردی کے آغاذ کا سبب تھا ۔۔۔۔۔

6 جنوری1952ئکو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر ،شاہ ولی ،نے بھارت کے اخبار ”دی ہندو” کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی کی کہ پشتونستان میں ہم چترال ،دیر،سوات ،باجوڑ تیراہ ،وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کریں گے۔

26 نومبر1953کو افغانستان کے نئے سفیر غلام یحیی خان طرزی نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی جوابا انہوں نے مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی 28مارچ 1955میں افغانستان کے سردار دائود خان نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آلود تقریر کی جس کے بعد29مارچ کو کابل جلال اباد اور قندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پر تشدد مظاہروں کا آغاذ کر دیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بیحرمتی کی گئی جس پر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا 55 ء میں سردار دائود نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر سپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا یہ غالبا افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے پہلی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا اس کی جدید ترین شکل ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں۔

جنہوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا مئی 1955میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا جس پر جنرل ایوب خان نے بیان جاری کیا کہ اگر افغانستان نے کسی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کبھی نہ بھول سکے ،جس کے بعد وہ رک گئے انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے سفیر ، میخائل وی ڈگٹائر،نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کروائی 1955نومبرمیں چند ہزار افغان قبائلی مسلح جنگجو گروپس کی صورت میں 160کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقے میں بلوچستان پر حملہ کر دیا پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی جھڑپیں کئی دن جاری رہیں۔

مارچ 1960میں افغانی فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹر ز سے گولہ باری شروع کر دی جس کے بعد پاکستان ائیر فورس کے 26طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی 29ستمبر1960کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کر دیا پاکستان آرمی نے ایک بار پھر ان کو بھاری نقصان ہنچاتے ہوئے واپس دھکیل دیا 1960میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپ بنے مئی 1961میں افغانستان نے باجوڑ ،جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیرکور نے کیا اور اس مرتبہ بھی پاک فضائیہ نے بمباری کر کے حملے کا منہ توڑ جواب دیا جولائی 1963میں ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے اس کے بعد دو سال تک امن رہا 1965میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے بھی موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہمند ایجنسی پر حملہ کر دیا لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا بعد میں پتا چلا یہ افغانیوں نے کیا ہے اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔

1971میں افغانستان نے ،اے این پی ،والوں کے ناراض پشتونوں اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنائے عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک ان کیمپس کا حصہ تھے 1971میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کو دو لخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹس افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے اس وقت افغانی اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ دو ٹکڑے ہونے کے بعد اب پاکستان کے چار ٹکڑے ہونگے ۔1972میں اے این پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کے ایما پر دوبارہ پشتونستان کی تحریک کو منظم کرنا شروع کر دیا لیکن اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ پشتونشتان تحریک بری طرح ناکام ہو چکی ہے اس لیے اس نے اب ،بھارت ، کے ساتھ مل کر ،ازاد بلوچستان، تحریک شروع کر دی
1973میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے ،پشتون زلمی ،کے نام سے نئی تنظیم سازی کی 1974میں افغانستان نے ”لوئے پشتونستان ” کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا فروری 1975 افغان نواز تنظیم ،پشتون زلمی، نے خیبر پختونخواہ کے گورنر حیات خان شیر پائو کو بم دھماکے میں شہید کر دیا (بحوالہ کتاب ” فریب ناتمام” از جمعہ خان صوفی ) اٹھائیس اپریل 1978میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کر دی جسے ،انقلاب نور ، کا نام دیا گیا جس کے نتیجے میں صدر دائود سمیت ہزاروں افغانیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کر دی گئی کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی ”لوئے پشتونستان ” کی حمایت کا اعلان کر دیا۔

1979میں افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہو گئے اور کمیونسٹ ہزاروں افغانوں کا قتل کرنے کے باوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکے اپنی حکومت خطرے میں دیکھ کر کمیونسٹوں خاص طور پر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملے کی دعوت دے دی 24دسمبر1979روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا روس پورے افغانستان کو روندتے ہوئے طورخم بارڈر تک پہنچ گیا اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائیں گے یعنی بلوچستان اور کے پی کے لے لیں گے روس و افغان کمیونسٹ افواج نے قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف برسر پیکار مجاھدین کی مکمل مدد کی 1980میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الزولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے اس تنظیم نے مبینہ طور پر پاکستان کے صدر ضیا الحق کو پاک فوج کے سترہ جرنیلوں سمیت شہید کر دیا۔

79سے 89 تک روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی کے جے بی اور افغان ایجنسی خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کاروائیاں کیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی زیادہ تر پشتون شہید ہوئے 2006سے اب تک افغانستان کی نئی ایجنسی این ڈی ایس بھارتی ایجنسی را کے ساتھ مل کر پاکستان میں ٹی ٹی پی سمیت کوئی پچاس کے قریب مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے تمام تنظیموں کی مشترکہ کاروائیوں میں اب تک ساٹھ ہزار پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بڑی تعداد میں پشتون تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے ہزاروں اب بھی آئی ڈی پیز کی شکل میں بے گھر ہیں پاکستان کو کم از کم سو ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ان سب دہشت گردانہ حملوں کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں اس عرصے میں امریکہ نے افغانستان میں فاٹا اور بلوچستان کی سرحدوں پر ” ڈیوہ اور مشال ” کے نام پر اپنی خصوصی ریڈیو سروس کا آغاذ کیا جس کا تقریبا سارا عملہ افغانیوں پر مشتمل ہے ان کا مقصد پشتونوں کو پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کے مذموم ارادوں میں سب سے بڑی رکاوٹ افواج پاکستان ہے سیاست دان تو وہ خرید سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن جیسے خود ساختہ مذہبی لیڈران بھی کبھی ان کے لیے مسلہ نہیں رہے کیونکہ وہ تو پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک بھی نہیں رہے وہ تو پاکستان میں ڈیم بنانے کے بھی مخالف ہیں اے این پی تو انڈیا سے اس کا معاوضہ بھی وصول کرتی ہے یہی حال مولانا کا ہے جو ہر حکومت کا حصہ رہے لیکن ملکی سلامتی سے لا تعلق کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بن کر مسلے کو سرد خانے میں ڈال کر مالی فائدے ضرور حاصل کیے اور اس کا اعتراف معروف بھارتی صحافی پرتاپ ویدک نے بھی اپنے کالموں میں کیا کہ پہلی بار پاکستان کی فوج نچلے پائدان پر کھسک گئی ہے اور پہلی بار پاکستان کی پارلیمنٹ میں ہندوستان مخالف کوئی ارکان اسمبلی نہیں ہے کوئی کشمیر کا نام نہیں لیتا اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے اس لیے مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے یہ 2013کے الیکشن کے بعد چھپنے والے کالم ہیں اس کے بعد پاکستان پر کیا کیا قیامتیں ٹوٹتی رہیں اور انڈیا اور افغانستان نے مل کر پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا افغانستان نے پاکستان پر جو دہشت گردانہ حملے کیے ان میں سب سے بڑا حملہ 16دسمبر2014کو اے پی ایس پر کیا گیا جس میں بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر سات افغان دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا جس میں ایک سو پچاس بچوں اور اساتذہ کو بیدردی سے شہید کر دیا گیا آج بھی وہ منظر ہمیں خون کے آنسو رلاتے ہیں لیکن کیا کسی نے مولانا سے اس کے لیے کوئی ایک مذمتی بیان سنا؟ یہ مولانا آج اپنی کرسی اور مرعات چھن جانے پر بن جل مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں کوئی دن نہیں جاتا جب ان کا عمران حکومت کے خلاف دھونس دھمکیوں بھرا بیان نہ آتا ہو اب آگے سنیے جون 2016میں افغان نیشنل آرمی نے تورخم بارڈر پر باڑھ لگانے والی پاک فوج پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے میجر علی جواد کو شہید کر دیا پاک فوج کے جوابی حملے میں افغان فورسز اپنی چیک پوسٹیں اور قلعہ تک چھوڑ کر فرار ہو گئیں اور بعد میں اپنے زخمی فوجیوں کا علاج بھی پاکستان سے کرانے کی درخواست کی جو پاکستان نے قبول کر لی پانچ مئی 2017کو بھارت کی شہہ پا کر افغان نیشنل آرمی نے چمن بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس میں دو پاکستانی فوجی اور نو سوئلینپشتون شہید جبکہ چالیس کے قریب زخمی ہوئے جوابا پاک فوج کے حملے میں پچاس افغان فوجی ہلاک اور پانچ ملٹری پوسٹیں تباہ ہوئیں اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفے سے دہشت گرد افغان سر زمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر حملے کر رہے ہیں۔

فاٹا ،بلوچستان اور کے پی کے میں آپریٹ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظیموں کے مراکز افغانستان میں ہیں کیا اس بات سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے ؟دوسری جانب ،ڈیوہ اور مشال ریڈیو کی مسلسل محنت رنگ لائی اور عین اس وقت جب افغانستان کی بہت بڑی پراکسی کو شکست دینے کے بعد فاٹا میں دوبارہ آبادکاری اور تعمیر نو کا عمل جاری تھا 2018میں ایک بار پھر وزیرستان سے پشتونوں کی نئی تحریک لانچ کی گئی پی ٹی ایم کے نام سے ،افغان صدر اور افغان پارلیمنٹ نے اس تحریک کی اعلانیہ حمایت کی افغانوں نے دنیا بھر میں اس تحریک کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا یوں اس کو پشتونوں کی عالمی تحریک کے طور پر پیش کیا ۔اس تحریک میں ،پاکستان مردہ باد،اسرائیلی آرمی زندہ باد،دہشت گردی کے پیچھے وردی ہے ،لرو بریو پشتون اور پاکستان سے آزادی کے نعرے لگانا شروع ہو گئے افغان شعرا نے اس کے حق میں شاعری کی نظمیں لکھیں افغان مصوروں نے تحریک کے لیے مفت آرٹ تخلیق کیا جس کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنا شروع کر دیا گیا پونی والی تاجک ٹوپی جو اس سے پہلے پاکستانی پشتون علاقوں میں نہ کسی نے دیکھی نہ کسی نے پہنی اس کو تحریک کی علامت بنا کر مفت تقسیم کیا گیا وہ افغانی جو پاکستان میں رہتے ہیں یا جنھوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اردو سیکھ لی ہے نے سوشل میڈیا پر جعلی اکائونٹس بنا کر بہت بڑے پیمانے پر اس تحریک کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان مخالف پراپیگنڈہ شروع کر دیا پی ٹی ایم مخالفین یا پاکستان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا ملک ماتوڑکے ،ملک عباس اور ایس ایس پی طاہر داوڑ اس کی چند مثالیں ہیں۔

ایس پی طاہر داوڑ کو این ڈی ایس کا اہلکار ورغلا کر افغانستان لے گیا اور افغان حکومت نے اس کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش حوالے کرنے سے انکار کیا اور اس کی لاش پی ٹی ایم کے حوالے کی گئی۔۔۔۔۔۔ چند ماہ پہلے جب پاک فوج نے انڈین طیارے گرائے تو افغان سوشل میڈیا نے انڈیا کے ساتھ اظہار یکجحتی کیا اور جنگ کی صورت میں انڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ان غدارون کا یہ عمل ورلڈ کپ میچز کے دوران بھی سب نے دیکھا ۔یہ وہ ہیں جن کو ہم نے تیس سال پالا افغانستان میں این ڈی ایس اور ملا نور کی ایک خفیہ میٹنگ کا انکشاف ہوا ہے جس میں ٹی ٹی پی نے انڈین جہاز گرانے کا بدلہ پاکستان سے لینے کا فیصلہ کیا گیا فاٹا کے طلبا کو مفت داخلوں کا اعلان کیا گیا جو اس جھانسے میں آ کر افغانستان گئے ان کا ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا پکیتا میں آٹھ پشتونوں کو محض اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ پاکستانی تھے ایک دو سال پہلے بھی ایک افغان فوجی نے پاکستانی مزدوروں کو قتل کر دیا تھا جو صرف مزدوری کرنے گئے تھے جبکہ افغانی ہمارے ہاں ہر قسم کے کاروبار پر قابض ہیں ہمارے سیاستدان اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے نہ صرف ارجنٹ بیسوں پر انہیں شناختی کارڈ فراہم کرتے ہیں بلکہ ووٹ لینے کے لیے انہیں پناہ بھی دیتے ہیں محمود خان اچکزئی نے نادرہ کو مجبور کر کے افغانوں کو ہزاروں جعلی شناختی کارڈ بنوا کر دیے اسی طرح مریم صاحبہ اور مولانا فضل الرحمن افغانوں سے کام لے رہے ہیں ٹی ٹی پی کے نام کے ساتھ رانا ثنا کا نام نہ آئے کیسے ہو سکتا ہے ہزاروں افغان دہشت گرد پولیس میں بھرتی کیے گئے بازاروں ماکیٹوں میں ہر جگہ افغان پشتون بن کر پھر رہے ہیں پاکستانیو کبھی آپ نے سوچا یہ جور اتوں رات پلازے کھڑے ہوتے رہے ان کے مالک کون ہیں ؟ان کی شناخت اور ان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے جب موجودہ حکومت نے اقدامات شروع کیے ہیں تو یہ بجائے تعاون کرنے کے ہڑتالوں پر کیوں اتر آئے ہیں ؟کیونکہ ان کی شناخت ظاہر نہ ہو جائے ان کو مہنگائی سے مسلہ نہیں یہ تو پیسہ گاہک کی جیب سے نکلوا لیتے ہیں بلکہ راتوں رات اشیا کی قیمتوں کے ٹیگ بدل دیے جاتے ہیں آج تک دیکھا ہے کسی دکاندار نے اپنا نقصان کیا ہو یہ تو وہ لوگ ہیں جو ماہ مقدس میں مال سستا کر کے بیچنے کی بجائے قیمتیں ڈبل کر دیتے ہیں ان کو ڈر یہ ہے کہ ان کی شناخت ظاہر ہو جائے گی کسی بھی قومی نقصان کی صورت میں ان پر ہاتھ ڈالنا اسان ہو جائے گا پاکستانیو خدا کے لیے ان درندوں کا ساتھ دینے کی بجائے انہیں ظاہر کرنے میں حکومت کا ساتھ دیں ورنہ چڑیاں کھیت چگ گئیں تو باقی بچے گی نانی چار سو بیس پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی !

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی