واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ کے صدر اوباما نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کے کردار میں توسیع کی منظوری دے دی ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق وزارت دفاع کے سینئر افسر نے اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کے کردار کو بڑھانے کے فیصلے سے دہشت گردوں کے خلاف جنگی طیاروں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔تاہم اس کے تحت طالبان کو نشانہ بنانے کا واضح حکم نہیں دیا گیا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے اختیارات میں اضافے کے منصوبے کی منظوری دے دی جس کے بعد اب امریکی فوج طالبان کیخلاف جنگ میں زیادہ فعال کردار ادا کر سکے گی۔
رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کے دو سینئر عہدے داروں نے بتایا کہ اس فیصلے سے امریکی فوج افغانستان میں زیادہ بہتر طریقے سے فضائی قوت استعمال کر سکے گی۔گزشتہ ہفتے امریکی ریٹائرڈ جنرلز اور سینئر سفارتکاروں نے صدر اوباما پر زور دیا تھا کہ وہ امریکی فوج کے کردار میں اضافے کی منظور نہ دیں ، انہوں نے خبر دار کیا تھا کہ اس سے افغان طالبان کے خلاف جنگ متاثر ہو سکتی ہے۔نئی پالیسی کے تحت افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ امریکی فوج کب روایتی افغان فورسز کے ساتھ مل کر لڑ کیں گے ، اب تک امریکی فوجی صرف افغان اسپیشل فورسز کے ساتھ مل کر مقابلہ کرتے رہے ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کے اختیارات میں اضافے کے باوجود صرف ان موقعوں پر امریکی فوجی میدان جنگ میں اتریں گے جب ان کی شمولیت کے اسٹریٹجک اثرات مرتب ہو سکیں گے۔ ادھرافغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار میںنماز جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکے کے نتیجے میںامام سمیت 4نمازی شہید اور 40زخمی ہوگئے ۔افغان میڈیا کے مطابق صوبائی گورنر کے ترجمان عطااللہ کھوگیانی نے بتایا ہے کہ دھماکہ صوبائی دارلحکومت جلا ل آباد کے قریب واقع ضلع رودات کی مسجد میں نمازجمعہ کے وقت ہوا۔
رمضان المبارک کی وجہ سے مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔کھوگیانی کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی ہسپتالوں میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں بعض افراد کی حالت تشویش ناک ہونے سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔سیکورٹی حکام کاکہنا ہے کہ دھماکہ خیزمواد مواد مسجد کے محراب میں نصب کیا گیا تھا ۔فوری طور پر کسی بھی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔صوبہ ننگر ہار میں عسکریت پسندی اور مجرمانہ سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں اسی صوبے میں طالبان اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان گھمسان کی جنگ بھی ہو چکی ہے۔