افغانستان (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال افغانستان میں افیون کی کاشت میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کاشت کاری کے بہتر طریقہ کار سے فی ہیکٹر پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منیشیات کے مطابق سال 2016 میں افغانستان میں پوست کی کاشت کے زیر رقبہ علاقے میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر دو لاکھ ایک ہزار ہیکٹر رقبے پر پوست کاشت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پوست پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے، جس سے بعد میں ہیروئن بنائی جاتی ہے۔
گو کہ افغانستان میں افیون کی کاشت کو جرم قرار دیا گیا ہے کہ لیکن پوست کی فصل ملک کی سب سے زیادہ منافع بخش فصل ہے۔
افغانستان میں طالبان نے اپنے زیر کاشت علاقوں میں پوست کی کاشت پر ٹیکس عائد کیا ہے جو اُن کی شدت پسند سرگرمیوں کے لیے رقم فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منیشیات کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پوست کی کاشت کے بارے میں ان اعداد و شمار نے ’افیون کی کاشت روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو خطرہے میں ڈال دیا ہے۔‘
پوست کے پودوں سے حاصل ہونے والی افیون کا استعمال درد کش ادویات بنانے میں ہوتا ہے۔ اگرچہ کئی ممالک ادویات کی تیاری کے لیے پوست خود کاشت کرتے اور افغانستان سے حاصل ہونے والی پوست کی فضل زیادہ تر منشیات بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔
افغانستان میں حکومت نے ریاستی سطح پر پوست کی کاشت ختم کرنے کی پالیسی نافذ کی ہے لیکن اس کے باوجود بھی حکومتی زیر کنٹرول علاقوں میں افیون کی کاشت میں اضافہ ہو رہا ہے اور حکام نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
افغانستان میں گذشتہ سال صوبائی حکام نے محض 335 ہیکٹر رقبے پر لگی پوست کی فصل تباہ کی ہے جبکہ سال 2015 میں تقریباً چار ہزار ہیکٹر رقبے پر زیر کاشت فصل تباہ کی گئی تھی۔
افغانستان کا جنوبی علاقے میں پوست کی کاشت زیادہ ہوتی ہے اور ملک کی مجموعی پیداوار میں سے 54 فیصد پوست جنوبی علاقے میں کاشت ہوتی ہے۔
طالبان کے زیر کنٹرول جنوبی صوبے ہلمند میں تقریباً 80 ہزار ہیکٹر رقبے پر پوست کاشت کی گئی ہے۔ سنہ 2014 میں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے ہلمند میں کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔