اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل میں امریکن یونیورسٹی پر حملے کی شدید مذمت کی ہے۔
جمعرات کو افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے ٹیلی فون کال کے بعد ایک بیان میں جنرل راحیل شریف نے کہا کہ افغانستان میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق جمعرات کو ’نیشنل سکیورٹی کونسل‘ کے ایک غیر معمولی اجلاس میں امریکن یونیورسٹی پر حملے سے متعلق اُمور کا جائزہ لیا گیا۔
بیان میں پاکستان کا نام لیے بغیر الزام لگایا گیا کہ افغان انٹیلی جنس ایجنسی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس)‘ کو حاصل ہونے والی معلومات سے پتہ لگتا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی ڈیورنڈ لائن کی دوسری جانب کی گئی۔ تاہم، بیان میں کہا گیا اس حملے سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔
بیان میں بتایا گیا کہ اس اہم اجلاس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ٹیلی فون پر بات کی اور کہا کہ یونیورسٹی پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سنجیدہ اور عملی کارروائی کی جائے۔
پاکستانی فوج کے مطابق افغان عہدیداروں نے تین موبائل فون نمبر پاکستان کو فراہم کیے جو مبینہ طورپر یونیورسٹی پر حملے کے دوران حملہ آورں سے رابطے کے لیے استعمال کیے تھے۔
پاکستانی فوج کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق پاکستانی فوج نے پاک افغان سرحد کے قریب ’کومبنگ‘ آپریشن کیا تاکہ شدت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق ہو سکے۔
بیان کے مطابق اب تک کے شواہد اور ’کومبنگ‘ آپریشن کے مطابق جو موبائل فون نمبر فراہم کیے گئے وہ ’سمز‘ افغان کمپنی کی طرف سے جاری کی گئی تھیں اور وہ کمپنی افغانستان ہی میں قائم ہے، جس کے سنگل پاک افغان سرحد میں آتے ہیں۔
پاکستانی فوج کی طرف سے کہا گیا کہ تمام افغان موبائل فون نمبرز کی مزید تکنیکی جانچ کا عمل جاری ہے۔ جنرل راحیل شریف نے افغان صدر کو ہر طرح کی تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکن یونیورسٹی پر ہوئے حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
افغان حکام کے مطابق مرنے والوں میں ایک پروفیسر، سات طالب علم، یونیورسٹی کے دو سکیورٹی گارڈز اور نیشنل سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار شامل ہیں۔