افغانستان میں ہزاروں پاکستان مخالف عسکریت پسند موجود، اقوام متحدہ

Afghanistan - Taliban

Afghanistan – Taliban

افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ہزاروں جنگجو افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ رپورٹ سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔

افغانستان میں چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درمیان پاکستان مخالف شدت پسند پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ انکشاف اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان شدت پسندوں کی اکثریت کا تعلق کالعدم تنظیم ‘تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کے افغانستان میں ‘اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی مقامی شاخ کے ساتھ بھی روابط ہیں اور یہ پاکستان میں سویلین اور عسکری اہداف پر حملوں میں ملوث رہی ہے۔ فوری طور پر کابل حکومت کا اس رپورٹ پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی اس ٹیم نے تیار کی ہے، جو عالمی ادارے کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرتی ہے اور دنیا بھر میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی نقل و حرکت کا بھی ریکارڈ رکھتی ہے۔ یہ رپورٹ اقوام متحدہ کی جانب سے اسی ہفتے جاری کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ‘آئی ایس ان خراسان کہلانے والی داعش کی مقامی شاخ سے وابستہ شدت پسندوں کو نہ صرف افغان سکیورٹی دستے بلکہ وہاں تعینات امریکی اور نیٹو دستے اور کبھی کبھار طالبان بھی نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم داعش کے ارکان کی تعداد تقریبا بائیس سو ہے۔ گو کہ اس تنظیم کی مقامی قیادت کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے مگر خیال کیا جاتا ہے کہ شامی شہری ابو سعد محمد الخراسانی اس کا سربراہ ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مانیٹرنگ ٹیم کو خفیہ اطلاع ملی کہ مشرق وسطی سے ‘اسلامک اسٹیٹ کے دو سینئر کمانڈر ابو قطیبہ اور ابو حجر العراقی حال ہی میں افغانستان پہنچے تھے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ‘اسلامک اسٹیٹ افغانستان کے تمام حصوں میں دہشت گردانہ حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ تنظیم کے ارکان افغان طالبان کے ان اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں، جو حالیہ امریکا طالبان امن ڈیل کے خلاف ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ کئی سالوں سے جاری مذاکراتی عمل کے بعد رواں سال فروری میں دوحہ میں امریکا اور طالبان نے ایک امن ڈیل کو حتمی شکل دی تھی۔ اس ڈیل کے تحت طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے، جن میں سے کابل حکومت چار ہزار کو رہا کر چکی ہے۔ افغان طالبان بھی اپنے زیر حراست سات سو سرکاری اہلکار رہا کر چکے ہیں۔

افغانستان کے لیے خصوصی امریکی مندوب زلمے خلیل زاد پچیس جولائی ہفتے کے دن پانچ ملکوں کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ ان کے اس دورے کا مقصد کابل حکومت اور طالبان عسکریت پسندوں کے مابین مذاکرات کو عملی شکل دینے کی کوشش کرنا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ہفتے کے روز بتایا کہ خلیل زاد اس دورے کے دوران متعدد ممالک کا سفر کریں گے۔ امن مذاکرات میں سہولت کاری کے لیے وہ اوسلو، اسلام آباد، دوحہ، کابل اور صوفیہ جائیں گے۔ افغانستان میں خلیل زاد قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو آگے بڑھانے پر زور دیں گے، جو امن مذاکرات کی ابتدا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ تمام تر سفارتی کوششیں افغانستان میں دیرپا قیام امن کے لیے کی جا رہی ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور لشکر اسلام جیسی کالعدم تنظیموں سے وابستہ شدت پسندوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی مقامی علیحدگی پسند گروہ بلوچستان لبریشن آرمی بھی سرگرم ہے، جو جنوبی صوبہ سندھ اور بلوچستان میں متحرک ہے اور انہی صوبوں میں حملے بھی کرتی آئی ہے۔ ان تمام تنظیموں کے حملوں میں نہ صرف پاکستانی فوجی اہلکاروں بلکہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہلاک ہو چکی ہے۔

ٹی ٹی پی سن 2014 میں پاکستانی تاریخ کے بد ترین سانحے میں بھی ملوث تھی، جب اس تنظیم سے وابستہ شدت پسندوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دھاوا بولتے ہوئے ایک سو چالیس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان میں اکثریت کم عمر طالب علموں کی تھی۔