افغانستان کے امن مفاہمتی عمل میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں جزوی کامیابی کے بعد پاکستان کے کردار کو سراہا جارہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان نے افغان تنازع کے حل کے لیے بڑا موثر کردار ادا کیا ہے، لیکن اس حوالے سے مکمل کریڈٹ لینے میں ارباب اختیار کو محتاط رویے کی بھی ضرورت ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بیان بدلتے دیر نہیں لگاتے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس کا اظہار تو کیا کہ صدر ٹرمپ پاکستان سے بہت خوش ہیں، لیکن ہمیں یہ اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کے لیے امریکی صدر کے رویے میں لچک زیادہ حوصلہ افزا اس لیے نہیں کہ امریکی صدر نے پاکستان کو کولیشن فنڈ کے واجبات ابھی تک جاری نہیں کیے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا حق ہے۔
کولیشن فنڈ کی مد میں امریکا، پاکستان کے واجبات ادا کرنے کا پابند ہے، اگر امریکا کی جانب سے پاکستانی واجبات کا نصف بھی مل جاتا ہے تو پاکستان معاشی مسائل سے باہر نکل سکتا ہے، لیکن امریکا پاکستان کے جائز واجبات غیر منطقی طور پر ادا نہیں کررہا۔ اس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ امریکا، اب بھی پاکستان کو دبائو میں رکھنے کے لیے تعاون کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔
مفاہمتی تنازع حل کے حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں ایک سہولت کار تھا اور ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر اپنا کام پورا کردیا۔‘‘ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا غیرملکی اخبار کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’’ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر اپنا کام پورا کرلیا، اب کیا بات چیت ہوتی ہے، یہ عمل کیسے آگے بڑھتا ہے، اس کا انحصار ہونے والی ہر ملاقات کی پیش رفت پر ہے، اس عمل میں طالبان کے کئی گروپ اور اسٹیک ہولڈرز ہیں جن سے رابطے میں وقت لگتا ہے۔‘‘
افغانستان میں امن کی سب سے زیادہ ضرورت جس طرح افغان عوام کو ہے، اُس سے کہیں زیادہ پاکستان کو بھی ہے، کیونکہ افغانستان میں اس وقت پاکستان کے خلاف سازشی عناصر نے ڈیرہ بنایا ہوا ہے۔ مزار شریف میں پاکستانی سفارت خانے میں دہشت گردی کی کوشش سے پاکستان کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کے کردار پر ملک دشمن عناصر کو تکلیف ہورہی ہے، تاہم یہاں حکومتی وزراء کو افغانستان میں پائیدار عمل میں بلند بانگ دعووں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ امریکا اس حد تک کامیاب رہا ہے کہ افغان طالبان کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو مستقبل میں خلاف بھی استعمال کرسکتا ہے۔
امریکا اب یہ کہنے کی پوزیشن میں آچکا کہ افغان طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان اثر نفوذ موجود ہے۔ پاکستان نے عجلت میں امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کی تجویز مان لی تھی کہ اسلام آباد میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرائے جائیں، تاہم افغان طالبان نے اسلام آباد میں مذاکرات کرنے سے انکار کرکے پاکستان کو کئی بڑے مسائل سے بچا بھی لیا۔ کابل انتظامیہ مفاہمتی عمل میں شریک نہیں۔ افغان طالبان نے سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبات بھی رد کردیے ہیں۔ قطر اس وقت مذاکرات میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ گو متحدہ عرب امارات و سعودی عرب میں امریکا کے ساتھ افغان طالبان کے براہ راست مذاکرات کا کریڈٹ لینے کا رجحان نہیں۔ پاکستان اس وقت امریکا کے ماضی کے کردار پر مکمل بھروسا کرنے کے بجائے محتاط رویہ اپنائے تو زیادہ بہتر ہوگا، کیونکہ کابل انتظامیہ و بھارت جس طرح تمام مفاہمتی عمل میں اپنا کردار چاہتے ہیں۔ افغانستان کے سابق وزیر داخلہ امر اللہ صالح کے ٹویٹ اور اشرف غنی و عبداللہ عبداللہ انتظامیہ کا ردعمل بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔ ایک جانب عالمی میڈیا میں یہ اطلاعات آچکی ہیں کہ 18مہینے میں امریکی فوجی انخلا کے ایک فارمولے پر حتمی گفت و شنید ہوچکی ہے لیکن زلمے خلیل زاد جب کابل گئے تو انہوں نے اس کی تردید کردی کہ مدت کے تعین پر کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔
افغان طالبان بھی کہہ چکے ہیں کہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے بغیر جنگ بندی نہیں ہوگی۔ تو اس صورت حال میں کامیابی کے علاوہ ناکامی کے نتائج کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ کہیں امریکی صدر، دوبارہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر نہ ڈال دیں۔ افغان مفاہمتی عمل کی مکمل کامیابی میں کئی دشوار گزار مراحل باقی ہیں، جس میں سب سے اہم مسئلہ افغانستان کے حکومتی نظام کا ہے۔ افغانستان کا نظام کون سا ہوگا، اس پر ڈیڈلاک کسی بھی مرحلے میں آسکتا ہے اور مسلکی اختلافات بھی کھل کر افغانستان میں بھیانک خانہ جنگی کو جنم دے سکتے ہیں، جس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوسکتا ہے۔ امریکا نے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی کہ افغانستان کے کس حصے میں کس مسلک کو اقتدار دیا جائے گا۔ امریکا مسلکی خانہ جنگی کا خواہاں ضرور ہوسکتا ہے کہ کسی طرح یہ فرقہ وارانہ خانہ جنگی میں ایران اور افغان طالبان کے درمیان ٹھن جائے، تاکہ ایران مملکت شام و عراق کے ساتھ افغانستان کی جنگ میں الجھ جائے اور اسرائیل کو ایران سے خطرات کم ہو سکیں۔
بھارت کا کردار افغانستان میں اس وقت بڑا اہم ہے، کیونکہ اس نے بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ کابل انتظامیہ اور دہلی کا گٹھ جوڑ عروج پر ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے خطرات موجود ہیں، خاص طور پر شمالی مغربی علاقوں میں ریاست کے خلاف پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں، وہ پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
پاکستان نے جب فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ پرائی جنگ کا ہتھیار نہیں بنے گا تو پھر مستقبل میں افغانستان کے نئے خدوخال کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت و منفی پہلوئوں پر حکومتی وزراء اپنے بیانات میں بردباری کا مظاہرہ کریں۔ دُور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان مشترکہ اعلامیے کو یقینی بنائے، افغان طالبان اور امریکا سمیت کسی بھی فورم میں پاکستان جو بھی کردار ادا کرتا ہے تو وہ اس فورم کا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرے، تاکہ علیحدہ علیحدہ بیانات سے کسی بھی قسم کی غلط فہمی پیدا نہ ہو سکے۔
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان اب مذاکرات اس نہج پر آچکے ہیں کہ انہیں مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کرنا چاہیے، تاکہ اس طریقے سے افغانستان میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچانے والوں کی سازش کامیاب نہ ہو سکے۔ امریکا کو اب پاکستان کی اہمیت کا مکمل ادراک ہے، اس لیے پاکستان اپنے حق سے دستبردار نہ ہو اور جو واجبات امریکا کے ذمے ہیں، ان کی ادائیگی کا مطالبہ بھی کرے۔ خاص طور پر پارلیمان کو افغان مفاہمتی عمل میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے اور قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی بناکر مستقبل میں آنے والے چیلنجوں کی تیاری کی جائے۔