کابل (جیوڈیسک)خارجہ امور اور قومی سلامتی کیلئے وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امن عمل کی سربراہی کابل حکومت کے پاس ہونی چاہیے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کابل میں افغان وزیر خارجہ ذلمے رسول کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ وہ خلوص، نیک نیتی اور خیر سگالی کا پیغام لے کر افغانستان آئے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں جاری قومی مفاہمتی عمل کی حمایت کے لئے علاقائی سطح پر کوششیں کرے گا۔ پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے بھی یہی کہے گا۔
کہ وہ بھی مداخلت اور کسی ایک گروپ کی حمایت کی پالیسی اختیار نہ کریں۔ جرمن خبر رساں ادارے کے مطابق سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ان کے اس دورے کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے صدر حامد کرزئی کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینا ہے۔ مئی میں نواز شریف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے کسی سینئر عہدیدار کا افغانستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔
پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ دیانتدارانہ بنیادوں پر تعلقات کے ایک نئے باب کی امید ہے۔ اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب میں افغان وزیر خارجہ ذلمے رسول کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ دیانتدارانہ بنیادوں پر تعلقات کے ایک نئے باب کے آغاز کی امید کرتے ہیں۔ ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ امن مذاکرات افغان قیادت کی نگرانی میں ہونے چاہیں۔
ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس سارے عمل میں افغان آئین کا احترام کیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں ہمیں پاکستان کی حمایت درکار ہے۔ اس وقت امریکی سربراہی میں تقریبا ایک لاکھ غیر ملکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ اگلے سال اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد یہ فوجی افغانستان چھوڑ دیں گے۔ حامد کرزئی دو مرتبہ صدر رہنے کے بعد قانونی طور پر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔
اس حوالے سے سرتاج عزیز نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ افغانستان یہ دونوں سنگ میل بہتر انداز میں عبور کر لے گا۔ پاکستان افغانستان میں امن اور مفاہمت کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا اور ہمارا خیال ہے کہ امن عمل کی سربراہی بھی افغان حکام کے پاس ہونی چاہیے۔ افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ پر امن، مستحکم اور متحد افغانستان پاکستان کے حق میں ہے۔