افغانستان میں امن اور مفاہمت کا بہترین موقع

Peace in Afghanistan

Peace in Afghanistan

تحریر : قادر خان یوسف زئی

افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکا صدارتی انتخابات سے قبل من پسند سمجھوتے کی جانب پہنچنا چاہتا ہے۔ٹرمپ نے عمران خان کو لکھے مراسلے میں تعاون طلب کیا تو یہ بھی کہا کہ واشنگٹن حکومت کو مکمل ادراک ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو اپنی سرزمین پر قائم طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کر سکتا ہے۔دوسری جانب پاکستان نے اس مراسلے کے حوالے سے نکتہ ہائے نگاہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا نے افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے ٹرمپ کی ٹویٹ پر ردعمل کے بعد صدر ٹرمپ کا مفاہمتی مراسلہ مثبت راستے کی علامت بن سکتا ہے اگر امریکا سنجیدگی کے ساتھ افغان امن عمل میں پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کا اعتراف کرے ۔ عالمی برادری جانتی ہے کہ افغانستان میں امن مسئلے کا واحد حل افغانستان کے اسٹیک ہولڈرز ہیں ، پاکستان کا ماضی کی طرح موثر اثر رسوخ متاثر ہوا ہے کیونکہ جب بھی پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی تو کابل انتظامیہ اور امریکا کی جانب سے ایسا اقدام کردیاجاتا جس سے تمام مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوجاتا۔ افغان طالبان کا جھکائو بتدریج خطے کی دوسری قوتوں کی جانب بڑھ رہا ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان نے امریکا کے ساتھ اپنے تعاون کو برقرار رکھا ۔ جنیوا کانفرنس میں کابل انتظامیہ کے لئے امدادی پیکچ کے اعلانات ہوئے۔

پاکستان نے بھی دوسری مرتبہ کروڑوں روپوں کی گندم بطور امداد افغانستان کو دی۔ امریکی صدر کے نامزد خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کیا اور وزیر اعظم ، چیف آف آرمی اسٹاف ، وزیر خارجہ سمیت متعدد غیر ممالک کے سفیروں سے بھی ملاقات کی اور افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے لائحہ عمل پر مشاورت کی ۔ پاکستان نے زلمے خلیل زاد کی آمد اور کوششوں کو سراہا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکا کی جانب سے نئی شروعات کا خیر مقدم کیا اور پاکستان کے تعاون کا یقین دلایا ۔ زلمے خلیل زاد پاکستان کے دورے کے بعد کابل روانہ ہوگئے ۔زلمے خلیل زاد 02سے 20دسمبر تک پاکستان، افغانستان، روس، ازبکستان، ترکمانستان، بیلجیم، متحدہ عرب امارات اور قطر کا دورے پر ہیں۔ 15دسمبر کو پاکستانی وزیر خارجہ بھی دوبارہ افغانستان سہ ملکی کانفرنس میں ہونگے ۔ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان اگلے دور کیلئے براہ راست مذاکرات میں مزید پیش رفت کا امکان موجود ہے۔ کابل انتظامیہ نے12رکنی امن بورڈ تشکیل دیا ہے جو قطر میں قائم سیاسی دفتر سے مذاکرات کریں گے ۔ لیکن اس امن بورڈ کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے افغان طالبان نے رد کردیا ہے ۔ پاکستان کے ساتھ زلمے خلیل زاد کی گفت و شنید سے افغانستان میں امن کے لئے کشادہ راستوں میں بتدریج تبدیلی کا تمام تر دار و مدار امریکا اور کابل انتظامیہ کے رویئے پر ہے۔

دونوں فریقین ابھی تک سیز فائر پر رضامند نہیں ہوسکے ہیں ۔ اس لئے جہاں مذاکرات کے لئے کوششوں کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب عام شہریوں کے جان و مال کو نقصان سے بچانا بھی امریکا اور کابل انتظامیہ کی ذمے داری ہے۔ افغان سیکورٹی فورسز اور امریکا اتحادی فوج کے حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ہی گھر کے 37 عام افراد کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا ۔ زیادہ تر ایسی کاروائیاں اُن میں علاقوں میں کی جا رہی ہیں جہاں افغان طالبان کی عمل داری کی وجہ سے عوام کو جنگی صورتحال کا سامنا تو نہیں ہے لیکن آئے روز فضائی حملوں سے عام شہریوں کی بڑی تعداد کاجاں بحق ہونا تشوش ناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ افغانستان میں ایسے گروپس بھی ہیں جو قیام امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے بہیمانہ کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک مذہبی تقریب میں خود کش دھماکے سے 50 سے زائد افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے تقریب میں ایک ہزار سے زائد علما و عوام شریک تھے۔

عید میلاالنبی ۖ کے موقع پرافغان علماء کی جانب سے جرمنی اور فرانس کے سفارت خانوں کے نزدیک واقع ایک شادی ہال میں منقعدہ تقریب میں خودکش دھماکہ اس بات کی نشان دہی کررہا تھا کہ افغانستان میں جاری جنگ محض امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان میں موجود ایسے عناصر سے بھی کھلی جنگ ہے جو کسی بھی قسم کی مذہبی اقدار و روایات کے روادار نہیں ہیں۔ اس سے قبل بھی کابل و گرد نواح میں فرقہ وارنہ بنیادوں پر داعش خراساں شاخ کی جانب سے مذہبی و عوامی مقامات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حالیہ کابل دھماکے میں علما ء کی ایک بڑی تعداد کو خودکش بم دھماکے میں ہلاکت کا سامنا ہوا۔ یہ دھماکا ایک ایسے وقت کیا گیا جب پوری دنیا میں حضرت محمد ۖ کی یوم ولادت پر خصوصی تقریبات منعقد کی جا رہی تھی۔ مذہبی اجتماع کو نشانہ بنانا یقینی طور پر کسی اچھی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتا۔ حملے کی ذمے داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔ افغان طالبان نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے مکمل لاتعلقی کا اعلان بھی جاری کیا تھا۔

افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے جہاں عالمی سطح پر مقتدور قوتیں کانفرنسوں کا انعقاد کرکے کسی لائحہ عمل پر پہنچنے کی کوشش کررہی ہیں تو دوسری جانب افغان طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکراتی عمل بھی جاری ہے۔ 14نومبرتا 16 نومبر افغان طالبان کے اعلی وفد نے قطر میں امریکی اعلی وفد سے ملاقات میںافغان تنازعہ کے پرامن حل پر گفتگو کی گئی۔ زلمے خلیل زاد نے یہ بیان قطر میںمنعقدہ ایک پریس کانفرنس میں دیاتھا۔ ان کے بقول اس وقت امن اور مفاہمت کا بہترین موقع ہے۔افغانستان میںقیام امن کے لئے زلمے خلیل زاد کی بطور سفیر تعیناتی کے بعد سے افغان امن عمل میں کافی تیزی آئی ہے۔ افغانستان میں عسکری کارروائی شروع کئے ہوئے امریکا کو اب سترہ برس بیت چکے ہیں۔ لیکن آج بھی اس ملک کے نصف حصہ سے زائد افغان طالبان کے کنٹرول میں ہے اور تقریباً یومیہ بنیادوں پر ہی افغان طالبان حکومتی فورسز پر حملے کر رہے ہیں۔ قطر میں منعقدہ پریس کانفرنس میں امریکی خصوصی ایلچی نے کہا، ”افغان حکومت امن کی خواہاں ہے۔” ان کے بقول افغان طالبان بھی یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ان کے مقاصد کا حصول عسکری راستے سے ممکن نہیں اور اب وہ یہ دیکھنا چاہیں گے کہ مذاکرات کے ذریعے کون کون سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔امریکی انتظامیہ اب افغان طالبان کے ساتھ کسی سیاسی سمجھوتے کی کھوج میںہے۔یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن نے طالبان کے بہت سے مطالبات کے لئے لچک دار رویہ رکھا ہوا ہے، جن میں سرفہرست براہ راست مذاکرات کو برقرار رکھنا بھی ہے۔

افغانستان کیلئے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے بقول وہ محتاط اندازمیں پر امید ہیں کہ امن کے کسی سمجھوتے تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول امکان ہے کہ افغانستان کے مختلف گروپوں کو اس ملک کے مستقبل کے لئے کسی روڈ میپ پر متفق کیاجا سکے، جس میںعورتوں کے حقوق، قانون کی بالا دستی وغیرہ جیسی چیزیں شامل ہوں۔ تیسرے دور کا دورانیہ گذشتہ ہونے والی مذاکرت کی با نسبت طویل رہا۔ اسی وجہ سے بعض ذرایع ابلاغ میں یہ خبر سامنے آئی کہ افغانستان میں عبوری حکومت اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے معاملات طے کئے جارہے ہیں، لیکن ان اطلاعات کی تردید افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کرتے ہوئے کہا کہ” عبوری حکومت یا آئندہ انتخابات اور صدر کے بارے میں میڈیا میں جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، وہ من گھڑت ہے۔ اسی طرح خفیہ عناصر اور اشخاص کی جانب سے افواہات پھیلائے جارہے ہیں، یا چند تجزیہ نگار اپنی جانب سے اندازے لگا رہے ہیں، جوتمام بے بنیاد ہے۔یہی اشخاص جان بوجھ کر تشویش اور شکوک کو ایجاد کرنا چاہتے ہیں”۔

دوحہ قطر میں ہونے والے تیسرے مذاکراتی دور کواہم مانا گیا ہے۔ دوسرے دور کے بعد امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد پر افغان طالبان بھی اطمینان کا اظہار کرچکے ہیں۔ دوسرے مذاکراتی دور کے بعد پاکستان میں مقید ملا عبدالغنی سمیت دو اہم سنیئر افغان طالبان رہنمائوں کو رہا کردیا گیا تھا۔ جس پر افغان طالبان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ ملا عمر سے” بردار ”کا خطاب پانے والے ملا عبدالغنی اخند بردار اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔ یہاں واضح طور پر نظرآرہا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان اعتماد سازی کی فضا میں اضافہ ہورہا ہے اور افغان طالبان کی شرائط پر امریکی رویئے میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی ہے۔ لیکن اس کی حد کتنی ہوگی اس کا اندازہ فی الحال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز اور اتحادی امریکی فورسز کی جانب سے مسلسل فضائی حملے اور افغان طالبان کی جانب سے مسلح کاروائیوں میں اضافہ اطمینان بخش نہیں کہلایا جاسکتا ہے۔ افغان طالبان نے قطر دفتر میں تین روزہ مذاکراتی عمل میں جنگ بندی کو شدت سے رد کرتے ہوئے پہلے مرحلے کے طور پر امریکی افواج کے انخلا کے لائحہ عمل پر اپنے مرکزی مطالبے پر قائم ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے اُن سنیئر رہنمائوں پر سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو امریکی بلیک لسٹ میں شمولیت کی وجہ سے آزادنہ سفر نہیں کرسکتے۔ تاہم تیسرے مذاکراتی دور کے بعد اس بابت توقع کی جاسکتی ہے کہ جنیوا کانفرنس میں فیصلوں کے تناظر کے بعد چند افغان طالبان رہنمائوں کو سفری پابندیوں سے آزاد کردیا جائے۔تاہم اس معاملے پر تاحال خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ نے کہا تھا کہ امریکا نے جنیوا میں افغانستان کے مسئلے پر بین الاقوامی کانفرنس کی تیاری کے لیے پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز کو بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا ۔جینیوا مینیسٹریل کانفرنس کے انعقاد میں امریکا اہم ترین کردار رہا لیکن صدر ٹرمپ زیادہ پُرامید نہیں ہیں کہ افغانستان تنازع کے پُرامن حل کے لیے کوششیں رنگ لائیں گی۔ امریکی ڈپٹی نائب سیکریٹری برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور ایلس ویلز نے 6 سے 7 نومبر تک اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جس میں دوطرفہ ایجنڈے کے اہم معاملات پر گفتگو کی گئی۔خیال رہے کہ افغانستان کے مسئلے کے پر امن حل کی کوششوں پر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے کانفرنس کا انعقاد سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ہوا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ افغان طالبان کے افغانستان کے بڑے وسیع رقبے میں عمل دارری کے حوالے سے مغربی میڈیا سمیت افغان طالبان کے دعوی بھی موجود ہیں کہ افغانستان کے 50 فیصد سے60 فیصد حصے پر افغان طالبان اپنا کنٹرول رکھتے ہیں۔ لیکن افغان طالبان وسیع رقبے پر اپنی عمل داری قائم ہونے کے باوجود افغانستان کے مکمل حصے پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسی طرح افغانستان اور امریکی اتحادی فورسز بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ افغان طالبان کو افغانستان میں پسپا کرکے جلد کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے برعکس دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ قندھار اور ہرات میں نیٹو افواج نے افغان فوجیوں کی جانب سے خود پر حملے (اندرونی دشمن) کے بعد بالمشافہ ملاقاتیں معطل کردی افغانستان میں تعینات نیٹو ترجمان کناٹ پیٹر نے اعلان کیا کہ ان کا یہ اقدام اپنے فوجی اور اعلیٰ افسران کی حفاظت کے لئے کیا جارہا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے بھی یہ لکھا کہ”یہ حفاظتی اقدام پے درپے دوحملوں کے بعد کیا گیا ہے،افغان فوجی مراکز سے بیرونی فوجی نکالے گئے ہیں ۔جبکہ بیرونی افواج کے مراکزکی سیکورٹی پر تعینات افغان فوجیوں کوبھی وہاں سے ہٹادیا گیا ہے۔اشدضرورت کے وقت افغان فوج کے افسروں کو بیرونی افواج کے مراکز میں بلایا جائے گا،اندرداخل ہونے سے پہلے ان کی سخت تلاشی لی جائے گی اوران کے پاس موجود اسلحہ باہرہی جمع کردیا جائے گا”۔ اس کا بنیادی سبب غیر ملکی افواج پر مسلسل اندرونی حملوں میں تیزی وجہ بنی۔نیٹو افواج کے سربراہ سکاٹ ملر قندھار گورنر ہائوس حملے میں بال بال بچ چکے ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے جو کہ نیٹو افواج کی جانب سے اختیار کیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج اور افغانستان سیکورٹی فورسز کے درمیان اعتماد کی فضا معدوم ہے اور اسی سبب فورسز کی جانب سے زیادہ تر انحصار فضائی حملوں کی صورت میں ہی کیا جاتا ہے۔

زمینی جنگ میں افغان طالبان، افغان سیکورٹی فورسز اور نیٹو افواج کو نشانہ بنا کر نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن فضائی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے افغان طالبان کے لئے افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ فضائی حملوں کو روکنے کے لئے افغان طالبان کے پاس جدید ہتھیار موجود نہیں ہیں اور نہ ہی اپنے کنٹرول شدہ علاقوں میں ان کے پاس ایسی کوئی فضائی امداد ہے جس کے بل بوتے پر کابل سمیت اپنے کنٹرول علاقوں کو فضائی حملوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ افغان طالبان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ زمینی جنگ کے لئے تو گوریلا وار کرسکتے ہیںاور فریق مخالف کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں لیکن انہیںفضائی برتری حاصل نہیں اس لئے افغان جنگ 17 برسوں بعد بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی کیونکہ ایک جانب زمینی جنگ میں افغان طالبان کو برتری حاصل ہے تو دوسری جانب فضائی حملوں میں افغان طالبان بے بس نظر آتے ہیں اور انہیں فضائی جنگ کا کوئی تجربہ اور جدید اسلحہ میسر نہیں ہے۔ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان اسی ایک نکتے نے جنگ کو اپنے آخری انجام تک پہنچنے سے روکے رکھا ہے۔ افغان طالبان جہاں مسلح مزاحمت کررہے ہیں تو دوسری جانب نفسیاتی طور پر بھی امریکا کو زچ کرکے اپنے مطالبات تسلیم کرانے اور انخلا کا مطالبہ کررہے ہیں۔ 2001 میں امریکا کا یہی گمان تھا کہ فضائی حملوں کے بعد افغانستان میں باآسانی قابض ہوجائیں گے لیکن ان کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے۔ ایک ٹریلین ڈالر افغان جنگ میں جھونکنے کے باوجود امریکا اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہا ہے۔

امریکا چاہتا ہے کہ اپریل 2019 کے صدارتی انتخابات سے قبل ایک ایسا فارمولا معاہدے کے صورت میں طے پا جائے جس کی رو سے امریکا افغانستان میں حسب منشا فوجی اڈوں میں قیام پزیر رہ کرایران ، روس اور چین پر نظر رکھ سکے۔ لیکن امریکی مقاصد میں افغان طالبان شدت کے ساتھ حائل ہیں جس پر امریکا کو دنیا بھر میں سبکی کا سامنا ہے اور صدر ٹرمپ کی عجلت میں دی گئی پالیسی کے سبب حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا اور افغانستان میں امن کی رائیں مسدود ہوئیں۔ امریکا نے شمالی اتحادکی جنگجو ملیشیا کے ساتھ اب مختلف گروپوں کو بھی افغان طالبان کے سامنے لاکھڑا کیا۔ کہا یہی جاتا ہے کہ اگر پاکستان امریکا سے اپنا مکمل تعاون ختم کرتے ہوئے فضائی اورزمینی حدود استعمال نہ کرنے دے تو امریکا افغانستان سے کافی برس قبل ہی انخلا کرجاتا۔ لیکن پاکستان عالمی قوانین کے تحت امریکا کی جنگ کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکا پاکستان کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان مخالف ٹوئٹر بیانات اور بعض عہدے داروں کے اشتعال انگیز رپورٹس کی بنیادی وجہ پاکستان سے سوویت یونین کی طرز پر کردار ادا کرنے کی خواہش ہے۔ لیکن پاکستان ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانیوں اور 124 ارب ڈالر کے نقصان کے باوجود امریکا کا قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا کیونکہ امریکا کے ڈومور کے مطالبات کو پورا کرنے سے انکار کی بازگشت سے صدر ٹرمپ افغانستان میں جنگ کے خاتمے میں جیت کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کے بے قرار ہیں۔ صدر ٹرمپ کا جارحانہ بیانیہ تبدیلی کا کوئی عندیہ نہیں دیتا بلکہ مسلسل غیر سفارتی آداب کے سبب پاکستان اور امریکا تعلقات سرد مہری کا سبب ضرور بن جاتے ہیں ۔

افغان طالبان نے گزشتہ 17برس سے جاری اس جنگ میں مختلف جنگی حکمت عملیاں اپنائیں ہیں جن کی روک تھام سے امریکا بھی عاجز آگیا ہے۔ لیکن افغان طالبان کا اپنے ان گنت مزاحمت کاروں کو کابل انتظامیہ و فورسز کی صفوں میں داخل کرنا ایک ایسی کامیاب حکمت عملی ہے جو نیٹو کی شکست میں اہم کرداراداکررہی ہے۔ افغان طالبان نے اپنی بھرپورتوجہ اب اسی جانب مبذول کردی ہے کہ وہ اپنے زیادہ ترفدائین کو حکومت کی صفوں میں داخل کرائیں گے بلکہ داخل کرچکے ہیں۔ یہ حکمت عملی گوریلا جنگوں سے زیادہ خطر ناک اور کامیاب قرار دی جارہی ہے کیونکہ اس سے نچلی سطح پر خوف وہراس زیادہ پھیلتا ہے اور عام عوام کا نقصان بھی کم ہوتا ہے۔ افغان طالبان کے مزاحمت کاروں کا حکومتی صفوں میں داخل ہونے والا ایک فدائی انتظامیہ کوبھاری نقصان سے دوچارکرتا ہے جتنا آمنے سامنے جنگ میں سوافغان طالبان بھی نہیں پہنچاسکتے۔ افغان طالبان اس حکمت عملی کو کامیاب ترین تصور کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ” اصل مقصد نقصان کی زیادتی یاکمی نہیں بلکہ اہم بات دشمن کی صفوں میں راورخوف کاپھیلانا اوربے اعتمادی کی فضا پیداکرناہے جس کی بدولت دشمن اتنے بڑے فیصلے کرنے پر مجبورہوجاتاہے”۔صرف ایک افغان طالبان مزاحمت کار کا تن تنہا صوبہ کے اہم ترین اورمحفوظ مقام گورنرہاوس میں نیٹوافواج کے سربراہ اورصوبہ کے بڑے رہنما،گورنر،ڈی آئی جی اورانٹیلی جنس کیسربراہ پر حملہ کرنا، افغان طالبان کے نزدیک ایک بڑی کامیابی اور کابل انتظامیہ کے لئے بڑے خوف اورڈر کاباعث قرار پاتا ہے۔

جنگی اصول کے مطابق حملے میں بچ جانے والے بھی ہلاک تسلیم کئے جاتے ہیں کیونکہ حملے کی زد میں تو آہی گئے ہیں۔اوریہ اسی جنگی حکمت عملی کو افغان طالبان اہم قرار دے رہے ہیں۔امریکا اور افغان طالبان کے تواتر سے ہونے والے براہ راست مذاکرات سے افغانستان میں قیام امن کے لئے موثر حکمت عملی نکلنے کے امکانات موجود ہیں۔ اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ صدارتی انتخابات سے قبل امریکا ایک بار کوشش کرے کہ وہ اپنی افواج کے مکمل انخلا کے بجائے ایک ایسی حکومت سے من پسند معاہدہ کرے جس میں امریکاکے افغانستان میں موجودگی کے جواز و کردار کو ضروری قرار دیا جائے۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے بعد نئی حکومت امریکا کے منشا کے مطابق ہی آئے گی جسے کٹھ پتلی حکومت کا درجہ حاصل ہوگا۔ لیکن امریکا افغانستان کی اس بے معنی جنگ کے بھاری اخراجات سے باہر آنا چاہتا ہے۔ انا کی اس جنگ میں امریکا کافی نقصان اٹھا چکا ہے اگر افغان طالبان کے ساتھ امریکا کو محفوظ راستہ نہیں ملتا تو امریکا، ویتنام اور عراق کی طرح افغانستان کی جنگ سے نکلنے پر مجبور ہوگا۔ افغان طالبان کی عسکری طاقت اس وقت کابل انتطامیہ اور نیٹو افواج کے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ جیسے پسپا کرنے میں انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ عالمی برادری کا کردار اس کی سربراہی ہو تاکہ مستقبل کی شرمندگی سے بچا جاسکے۔ افغان طالبان سے اگلے دور اور پاکستان کے تعاون کی ضرورت کو زلمے خلیل زاد بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس لئے امریکا اپنے ایلچی کی تجاویز کو خود بھی امن و مفاہمت کے ایک اور موقع کو دئیے بغیر ضائع نہ کرے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی