تحریر : قادر خان یوسف زئی امریکہ کی جانب سے پاکستا ن پر دبائو میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ امریکی دبائو میں کابل حکومت بھی پیش پیش ہے جو پاکستان کے خلاف بیان دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ۔ امریکہ جنوبی ایشیا کے لئے مسلط پالیسی کے تحت اپنی مرضی کا حل چاہتا ہے ۔ امریکی دبائو کے مقابلے میں پاکستان نے تحمل کی پالیسی کو اپنایا ہوا ہے۔ خاص کر پاکستانی عسکری فوج کے سربراہ چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاوید باوجوہ کا بیان نہایت متاثر کن تھاجس میں کہا گیا کہ پاکستان امداد کی بحالی کے لئے امریکہ سے نہیں کہے گا ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے دو ٹوک بیانیہ نے امریکی حکام کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کیلئے غور کرنے کا موقع فراہم کیاہے ۔ پاکستان نے امریکی پالیسی کے مقابلے میں جذباتی فیصلوں سے گریز کیا ۔ گو کہ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے ایک بیان میں واضح طور پر امریکی حکام و انتظامیہ پر واضح کردیا کہ اب پاکستان ، امریکہ کا اتحادی نہیں رہا ، کوئی اتحادی ایسی رویہ اختیار نہیں کرتا جیسا امریکہ نے پاکستان کے روا رکھا ہے۔ امریکی حکام کے سرد گرم بیانات اور پاکستان کی جانب سے تحمل مزاجی نے امریکی سفارتی حلقوں میںمثبت ردعمل کا بھی مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حال ہی میں امریکی سفارتخانے نے قائم مقام معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف، علاقائی امن و استحکام کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ امریکی سفارتخانے نے قائم مقام معاون خارجہ ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کے حوالے سے تفصیلی اعلامیہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ علاقائی امن و استحکام کے لیے ملکر کام کر سکتے ہیں، پاکستان اور امریکہ افغان امن، داعش کے خاتمے اور جنوبی ایشیاء میں دہشتگرد گروہوں کا خاتمہ کر سکتے ہیں، اعلامیے کے مطابق امریکہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی چاہتا ہے۔واضح رہے کہ امریکہ کی قائم مقام معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز نے پیر کو پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ دورہ دو طرفہ اور علاقائی تعاون پر دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
پاکستان نے امریکی کی جارحانہ غیر سفارتی پالیسی اور مالی امداد کے منجمد کئے جانے پر افغانستان میں امریکی آپریشن کے لئے دیئے گئے روٹ کو بند نہیں کیا گوکہ امریکی حکام نے عندیہ دیا تھا کہ اگر پاکستان نیٹو سپلائی بند کردیتا ہے تو وہ دوسرا راستہ اختیار کرلیں گے۔ لیکن امریکہ جانتا ہے کہ متبادل راستہ اختیار کرنے پر امریکی خزانے کو ناقابل برداشت بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے اس لئے اپنے تمام تر سخت بیانات کے باوجود امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے گوادر بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ اس وقت کراچی بندرگاہ سے افغانستان میں موجود نیٹو کے لئے سپلائی جاری ہے جو افغانستان پہنچتے پہنچتے چار دن سے ایک ہفتہ لگ جاتے ہیں اور اخراجات بھی زیادہ آتے ہیں ۔ جبکہ گوادر راہدری استعمال کرنے سے چوبیس گھنٹوں میں نیٹو سپلائی افغانستان پہنچ سکتی ہے اور اخراجات بھی نصف سے کم ہوجاتے ہیں ۔دل چسپ بات ہے کہ امریکہ ایک جانب پاکستان کے خلاف غیر سفارتی لب و لہجہ استعمال کررہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کی جانب سے مزیدا سہولیات و قربانیاں بھی چاہتا ہے ۔یہاں تک کہ سی پیک کے خلاف بھارتی ہمنوائی میں بیان دے کر اپنے عزائم اور سی پیک میں شمولیت نہ ہونے پر اپنی خفگی کا اظہار کرکے اپنے عزائم ظاہر کئے تھے۔افغانستان میں امن وسط ایشیا و جنوبی ایشیا کے معاشی مستقبل و امن کے حوالے سے انتہائی توجہ طلب مسئلہ بن چکا ہے ۔ اب تک امریکہ کی جانب سے افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے کامیابیاں کے دعوی سامنے آتے رہے ہیں لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے جب سے پاکستان پر اپنی شکست کا ملبہ گرانے کی کوشش کی ہے تو اقوام عالم جان چکی ہے کہ امریکہ کھربوں ڈالرز افغانستان کی لاحاصل جنگ میں جھونکنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکا ۔ افغانستان میں امریکہ مسلسل پسپا ہو رہا ہے۔
ان حالات میں ماسکو نے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے اپنا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی پیشکش کی جو امریکہ نے مسترد کردی۔ماسکو میں وزرات خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ روس آمادہ ہے کہ افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کیلئے پلیٹ فارم فراہم کرسکتا ہے۔روس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لئے براہ راست مذاکرات کے حامی ہے۔ماسکو اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ افغانستان میں بین الاقوامی استحکام کی کوششوں کا تجربہ طاقت کے حل کو غلط ثابت کرتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکہ روسی پیشکش کا مثبت جواب دیتا لیکن کابل میں تعینات امریکہ کے نئے سفیر جون بیس نے روسی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اپنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں کہا کہ کوئی بھی بیرونی رائے افغانستان میں مسلط نہیں کی جاسکتی۔ سفیر جون بیس نے کہا کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ خود افغان عوام کریں گے ناکہ کسی بیرونی ملک کی حکومت یا دہشت گرد یا مجرم گروہ، ”چاہے ہم امن اور مصالحت کی بات کر رہے ہوں یا اقتصادی ترقی کی یا اچھی حکومتی عملداری اور افغان عوام کو حکومت کی جانب سے فراہم کردہ خدمات اور تعاون کے معیار کی بات کر رہے ہوں، ان تمام معاملات کا اختیار افغانوں کے پاس ہونا چاہیے”۔ کابل تعینات امریکی سفیر کا پہلا بیانیہ ہی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا اعلامیہ تھا کیونکہ روس نے کابل حکومت اور افغانستان کے 60فیصد حصے پر قابض امارات اسلامیہ کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے دونوں فریقین کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔امریکہ اچھی طرح جانتا ہے کہ افغان طالبان کو شکست نہیں دی جا سکی ہے ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کے باوجود نیٹو ممالک افغانستان میں عمل درآری کرنے میںکامیاب نہیں ہوسکے تھے تو اب چند ہزار فوجی افغانستان پر کیونکر اپنا غلبہ پا سکتے ہیں ۔ یہ ضرور ہو رہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کررہا ہے اور حال ہی میں امریکہ نے اپنے 7ہزار فوجی مزید افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔افغانستان میں حکومتی ‘دسولی عالی شوریٰ یا شوریٰ اعلیٰ صلح’ کے مشیر محمد اسماعیل قاسم یار کے بقول اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روس اور امریکا بین الاقوامی سطح پر کئی محازوں پر ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ روس کی جانب سے براہ راست مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے محتاط انداز میں اس کی پذیرائی کی، ”یہ ہماری ان کوششوں کے مطابق ہے، جو خطے کی سطح پر بہتر تعلقات اور قیام امن سے متعلق ہیں۔ افغانستان کی یہ خواہش ہے کہ خطے کے تمام ممالک اور بین الاقوامی قوتیں اپنے مفادات اور کوششیں افغانستان میں قیام امن سے جوڑیں ناکہ یہاں اپنی رقابت اور جنگ سے۔ ”
گزشتہ دنوںامریکی قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر نے سلامتی کونسل کے پندرہ ممالک کو افغانستان کی صورتحال کے بارے میں ایک بریفنگ بھی دی تھی۔ حالیہ عرصے میں کئی اعلیٰ عالمی سفارتکاروں نے افغانستان کا دورہ کیا ہے، جن میں گزشتہ ماہ امریکی نائب صدر مائیک پینس کا دورہ بھی شامل ہے۔سلامتی کونسل کے موجودہ صدر ملک قزاقستان کے سفیر برائے اقوام متحدہ کائرات عمروف کے مطابق یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی تازہ صورتحال کے بارے میں ایک جامع معلوماتی رپورٹ مرتب کی جائے۔ انہوں نے کہا، ”ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان کی صورتحال کا علم ہو۔ ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔” حال ہی میں ترکی کے شہر استنبول میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان غیر رسمی ملاقات کی خبر توجہ کا مرکز بنی لیکن افغان طالبان نے سختی کے ساتھ ایسے کسی مذاکراتی عمل میں اپنے کسی نمائندے کی کسی سیشن میں شرکت کو مسترد کردیا ۔ یہاں یہ خبر بھی سامنے آئی کہ پاکستان کے علاقے مری میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ہو ئے ہیں۔17جنوری کو افغان طالبان کے تین رکنی وفد کی کابل حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کی خبر کی ابھی تک کوئی تردید سامنے نہیں آئی اور نہ ہی دونوں حکومت کی جانب سے ایسے کسی مذاکرات ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کی ملاقاتوں کو عموماََ مخفی رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ کسی پلیٹ فارم کیلئے تبادلہ خیال کیا جاتا ہے تاکہ باقاعدہ مذاکرات کے لئے کسی متفقہ ایجنڈے پر پہنچا جا سکے ۔ جولائی 2015میں اسی طرز کے مذاکرات کادورپاکستان، کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ہوا تھا لیکن امریکہ کی جانب سے ایسے نامناسب اقدامات کی وجہ سے امن مذاکرات جمود کا شکار ہوگئے ۔ تین برس قبل اہم سہ فریقی بات چیت ابھی دوسرے مرحلے میں داخل بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ افغان طالبان کے بانی ملا عمر مجاہد کی موت کی خبر سامنے لا ئی گئی ۔ اس وقت تک افغان طالبان نے اپنے سربراہ کے انتقال کی خبر کا اعلان نہیں کیا تھا اور غیر اعلانیہ سربراہ ملا اختر منصور افغان طالبان کی امارات کاکام سرانجام دے رہے تھے ۔ ملا عمر مجاہد کے انتقال کی خبر آنے کے بعد افغان طالبان میں دھڑے بازی اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی لیکن ملا عمر مجاہد کے بیٹے اور بھائی کے وقتی اختلاف کے باوجود امارات اسلامیہ کو کمزور نہیں کیا جاسکا اور کچھ عرصے کے اندر ہی افغان طالبان کے بانی سربراہ کے بیٹے اور بھائی نے ملا اختر منصور کے ہاتھوں بیعت کرلی ۔ لیکن مری میں پہلے مذاکراتی عمل کے بعد قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں کو دھچکا ملا اور امریکہ نے قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو خود ناکام بنا دیا۔
پاکستان کی طرح وسط ایشیا ئی ممالک بھی افغانستان میں جلد از جلد امن کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے امریکہ کو ثبت کردار ادا کرنے کی مشورے دے رہے ہیں لیکن نظر یہی آرہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں امن سے زیادہ وہاں اپنی موجودگی کے لئے پروپیگنڈے کے لئے بے معنی جواز ضروری ہے۔امریکہ نے جہاں عسکری امداد کو منجمد کیا تو اس کا واحد جواز یہی دیا گیا کہ پاکستان میں افغان طالبان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے امریکی و کابل کی فوج کو نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔ پاکستان جب اس کا ثبوت طلب کرتا ہے تو امریکہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا سوائے اس گردان کے کہ پاکستان جانتا ہے کہ اُسے کیا کرنا ہے ۔پاکستا ن جانتا ہے کہ ماضی کی غلطی کو دوبارہ دوہرانے کے لئے امریکہ ڈو مور کا مطالبہ کررہا ہے لیکن امریکہ کو واضح جواب دیا جا چکا ہے اب پاکستان ، افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا ۔ امریکہ اور اقوام عالم پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے اور افغانستان میں موجود اُن دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے جو پاکستان میں امریکی اتحادی ہونے کی پاداش میں پاکستانی عوام و املاک کو نقصان پہنچا کر دہشت گردی کررہے ہیں۔پاکستان نے متعدد بار افغانستان کی حکومت اور امریکی اعلیٰ عہدے داروں کو افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ٹھوس شواہد کے ساتھ بھارت کی پاکستان میں دخل اندازی کے ثبوت فراہم کئے ہیں لیکن افغانستان اور کابل حکومت نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے کاروائیوں میں ملوث کالعدم جماعتوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی کرنے کا عملی ثبوت نہیں دیا ۔پاکستان دہشت گردی کے لئے مذہب کے نام استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی مسلسل سنجیدہ اقدامات کررہا ہے ۔ 1800 سے زائد پاکستانی مذہبی علما نے اپنے ایک متفقہ فتوے میں خودکش حملوں کو ناجائز اور غیراسلامی قرار دیتے ہوئے ‘حرام’ قرار دیا ہے۔ یہ متفقہ فتویٰ پاکستانی صدر ممنون حسین کی جانب سے کتابی صورت میں بھی جاری کر دیا گیا ہے۔کتابی صورت میں اس مشترکہ فتوے کے اجرا کی تقریب میں پاکستانی صدر ممنون حسین کا کہنا تھا، ”یہ فتویٰ ملک میں اعتدال پسند اور مستحکم معاشرے کے قیام کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کریگا۔”ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے اسلام کے سنہری اصولوں اور اس فتوے کو ہدایت کے لیے سامنے رکھ سکتے ہیں اور ایک قومی مکالمت شروع کر سکتے ہیں۔” ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کابل حکومت پاکستان کی جانب سے تمام مکاتب فکر کی جانب سے ایک متفقہ فتوی لینے میں دوبارہ کامیابی پر مبارکباد دیتی لیکن افسوس ناک صورتحال اُس وقت سامنے آئی جب کابل حکومت کے صدر اشرف غنی نے فتوی کے خلاف تنقیدی بیان دے دیا جس پر مذہبی حلقوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
پاکستان علماء کونسل، جس نے اس فتوے کو مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا، کا موقف ہے کہ اشرف غنی کو ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ کونسل کے چیئرمین مولانا زاہدالقاسمی کا کہنا تھا کہ، ”ہم اشرف غنی کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ انہیں بیانات دینے کے بجائے اپنے ملک کو سنبھالنا چاہیے۔ ہماری حکومت نے ہم سے مشورہ مانگا تھا اور ہم نے پاکستان میں خود کش حملوں، فوج پر حملوں اور جہاد کے اعلان کرنے کو غیر اسلامی قراد دیا ہے۔ صرف ریاست کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے۔ ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد بھی حرام ہے۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ نہ یہاں سے افغانستان میں مداخلت ہونی چاہیے اور نہ افغانستان سے پاکستان میں مداخلت ہونی چاہیے۔”فتوے میں یہ لکھا گیا ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانا یا خودکش حملے کرنا پاکستان میں بالخصوص حرام ہیں لیکن اس کے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسے حملے تمام اسلامی ممالک میں حرام ہیں۔ جس میں ظاہر ہے افغانستان بھی آجاتا ہے۔”کونسل کے ترجمان مولانا سید محمد قاسمی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی کو کوئی فتویٰ لینا ہے تو وہ اپنے ملک کے علماء سے لیں، ”ہمارے ملک میں دہشت گرد خود کش حملوں کو اسلام کے نام پر جائز قرار دے رہے تھے اور پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست کہتے تھے۔ لہذا ہم نے ان حملوں کو پاکستان میں غیر اسلامی قرار دیا۔ ہمارا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کے لیے ہی فتویٰ دے سکتے ہیں۔ اس لیے ہم اشرف غنی کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں اور اسے نا مناسب قرار دیتے ہیں۔”انہوں نے اس فتوے کا پس منظر بتائے ہوئے کہا، ”یہ فتویٰ دراصل گزشتہ برس مئی کے مہینے میں تقریبا 39 علماء کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔ بعد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ ء تحقیقات نے اس کو مختلف علماء کے پاس بھیجا، جنہوں نے اس کا مطالعہ کر کے اس کی توثیق کی۔ اب یہ ایک کتابی شکل میں آیا ہے، جس میں پاکستان کے صدر ممنون حسین کے بھی تاثرات ہیں”۔
علاقائی سطح پر پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پاکستان اپنی ریاست کے اندر ایسے اقدامات کو ترجیح دے رہا ہے جس میں دہشت گرد کے خلاف مربوط منصوبہ بندی کو ملحوظ خاطر رکھا جارہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستانی اقدامات کو تسلیم کرنے کے بجائے متواتر الزام تراشیوں نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور عدم اعتماد کی فضا میں اضافہ ہو رہاہے۔ جنوب ایشیائی پالیسی میں پاکستان کو ہدف تنقید بنا کر بھارت پرنوازشات خطے میں امن کے قیام میں منفی اقدامات ہیں ۔ بھارت ، پاکستان کے وجود کا اولین دشمن ہے ۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک بھارت کی ریشہ دیوانیوں کا سلسلہ دراز تر ہوتا جارہا ہے ، خاص کر مقبوضہ کشمیر اور سرحدی خلاف ورزیوں سمیت پاکستان کو جنگ کی کھلی دہمکیاں ثابت کرتی ہیں کہ امریکہ پاکستان کے اطراف میں ملک دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی کرکے چین اور پاکستان کے معاشی منصوبے سی پیک کی ناکامی کے لئے ہر انتہائی اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرے گا ۔ امریکہ اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا ہے ۔جو اس کی غلط فہمی ہے کہ وہ طاقت کے بل پر پاکستان سے ہمیشہ اپنے مطالبات منوا لے گا ۔ اسی طرح جہاں امریکہ القاعدہ کے خلاف پاکستان کے کردار کو ڈالرز میں تول رہا ہے تو امریکہ کو اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ 2001 سے لیکر آج تک امریکہ نے عراق ، افغانستان جنگ میں چار کھرب ڈالرز سے زیادہ اخراجات کرکے امریکی خزانے کو نقصان پہنچایا۔ جب کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود افغانستان اور عراق میں ابھی تک امن قائم نہیں ہوسکا تو صرف لاجسٹک اخراجات خود پر ہی خرچ کرنے سے پاکستان پر ناکامی کا ملبہ ڈالنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ افغانستان میں اس وقت 60فیصد سے زائد رقبے پر امارات اسلامیہ افغانستان کی عمل داری قائم ہے ۔ غنی حکومت تسلیم کرچکی ہے کہ افغان طالبان کو شکست نہیں دی جاسکی ، امریکی تھنک ٹینکس سمیت اعلیٰ ترین عسکری و حکومتی عہدے دار اعتراف کرچکے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ جنگ جیتنے میں ناکام رہا ہے ۔ تو اس کے بعد بھی امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دہمکیاں دینا اور تنقید کا نشانہ بنانا مایوس کن عمل ہے ۔ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ انٹیلی جنس میں معاونت کے ساتھ ساتھ امارات اسلامیہ افغانستان کے اُن مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا جس کے بعد ہی امریکہ اپنی تاریخ کی مہنگی ترین جنگ سے باہر نکل سکتا ہے ۔ گلبدین حکمت یار کا یہ بیان غور طلب ہے کہ امریکہ کو اپنے مخالف نئے بلاک سے خطرہ ہے۔ امریکہ کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے اتحادی غیر سفارتی پالیسی کی سبب جداگانہ راہ اختیار کر رہے ہیں۔ امریکہ کو افغانستان سے باہر نکلنا ہوگا ۔ چین کو گھیرنے کے لئے افغانستان میں نئی جنگی حکمت عملی کے مضر اثرات سے امریکہ مزید تباہی کا شکار ہوگا ۔ حالانکہ چین اور پاکستان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں چین کے فوجی اڈے نہیں بنائے جائیں گے ۔
امریکی صدر اپنی ملک کی عوام کو اپنی جارحانہ پالیسیوں کے سبب مشکلات میں مبتلا کررہے ہیں اور ان کے بیانات سے دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ضروری ہے کہ امریکہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔سلامتی کونسل کی جانب سے چودہ رکنی ٹیم نے گزشتہ دنوں افغانستان کا دورہ کیا تھا ۔ امریکی سفیر نکی ہیلی نے ایک بار پھر پاکستان پر بائو بڑھانے کے لئے اقوام متحدہ پر زور دیا تھا ۔۔افغانستان میں دیا گیا جمہوری عمل اور افغانستان کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی استعداد رکھتے ہیں اگر امریکہ مداخلت نہ کرے۔ امید تھی کہ سلامتی کونسل کا چودہ رکنی وفد کی افغانستان سے واپسی کے بعد وفد میں شامل امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے یک طرفہ رائے قائم کرنے کے بجائے پاکستا ن کی قربانیوں اور خدمات کو بھی مد نظر رکھتا ۔امریکہ اس نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کرے کہ اس کا کردار افغانستان میں امن کے بجائے مسلسل جنگ اور بد امنی کا سبب بن رہا ہے۔ اسلام آباد کے ساتھ کابل حکومت کا رویہ معتصبانہ ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ، افغانستان کا دیرپا اور مستحکم حل چاہتا ہے ۔ امریکہ کو اپنے مفادات کیلئے پورے خطے کو خطرات سے دوچار کرنے کی روش سے پوری دنیا متاثر ہوسکتی ہے ۔ روس کی جانب سے کابل حکومت اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی پیشکش کو بھی مسترد کرنا مثبت رجحان نہیں قرار دیا جاسکتا ۔امریکہ اور کابل حکومت خطے میں امن چاہتی ہے تو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے جارحانہ پالیسی بدلنا ہوگی۔خطے میں امن کے قیام کے لئے پاکستان کے تعاون کے بغیر کبھی کامیابی نہیں مل سکتی اس حقیقت کا ادارک امریکی انتظامیہ کے لئے ضروری ہے۔