افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) مشرقی افغانستان میں پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے والی ٹیم پر مسلح افراد نے حملہ کر کے کم از کم چار ارکان کو ہلاک کر دیا۔ جلال آباد میں منگل کو کیے گئے اس حملے کی ذمہ داری فوری طور سے کسی نے قبول نہیں کی۔
افغانستان کے مشرقی حصے میں انسداد پولیو کے لیے جاری ویکسینیشن مہم کے معاون کار ڈاکٹر جان محمد کے مطابق اس حملے میں پولیو ٹیم کے چار اراکین ہلاک اور کم از کم تین دیگر زخمی ہو گئے۔
گزشتہ برس افریقی ملک نائجیریا کو بھی جسے پولیو سے پاک قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد جنوبی ایشیا کی دو پڑوسی ریاستیں افغانستان اور پاکستان دنیا کے صرف دو ایسے ممالک ہیں، جہاں اب بھی پولیو کا مرض پایا جاتا ہے۔ رواں سال مارچ میں دہشت گرد گروپ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے کہا تھا کہ اس نے افغان صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں پولیو ٹیم کی رکن تین خواتین کو گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا۔ داعش سے وابستہ عسکریت پسند گروپوں کا گڑھ مشرقی افغانستان ہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان اور حکومتی دستوں کے مابین حالیہ جھڑپوں اور طالبان کے خلاف حکومت کی حالیہ کارروائیوں کے بعد سے ایسے عسکریت پسند گروپوں کی تعداد افغانسان میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ آئی ایس کے عسکریت پسندوں نے حالیہ دنوں میں شیعہ مسلم برادری پر حملوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
داعش نے حالیہ دنوں میں متعدد ٹارگٹ کلنگز کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ ان دہشت گردوں کا ہدف خاص طور پر افغانستان کی سول سوسائٹی، صحافی برادری اور قانونی شعبے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد ہوتے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران کابل حکومت نے اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کی مدد سے پولیو کے خلاف جاری مہم کے تحت 9.6 ملین بچوں کو پولیو کے خلاف حفاظتی قطرے پلانے کا بندوبست کیا۔ گزشتہ برس افغانستان میں پولیو کے 54 نئے کیسز رپورٹ کیے گئے تھے۔
افغانستان ایک بار پھر عدم استحکام، انتشار اور تشدد کی آگ کی لپیٹ میں نظر آ رہا ہے، وہ بھی ایک ایسے نازک وقت پر جب امریکا اور دیگر مغربی افواج ہندو کش کی اس ریاست سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے عمل کو تکمیلی مراحل تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ منصوبے کے مطابق دو ہزار پانچ سو سے لے کر تین ہزار پانچ سو تک امریکی اور سات ہزار نیٹو فوجیوں کا انخلا گیارہ ستمبر سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ عملی طور پر مگر لگتا یہ ہے کہ افغانستان سے یہ غیر ملکی فوجی انخلا جولائی کے وسط تک ہی مکمل ہو جائے گا۔
جلال آباد میں کچھ عرصے سے صحافیوں پر حملے اور خواتین صحافیوں کی ہلاکتوں کے واقعات میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
پولیو ویکسینیشن کی مہم میں شامل ٹیموں پر حملے افغانستان میں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ پولیو ٹیموں کے اراکین کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانا پڑوسی ملک پاکستان میں بھی عام ہے، جہاں پاکستانی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپ انسداد پولیو کی مہم میں شامل افراد اور ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی سٹاف پر مسلسل حملے کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں پولیو ویکسینیشن کے مراکز اور ہیلتھ ورکرز کو بھی ایسے حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ شدت پسند عناصر کی طرف سے ان حملوں کا جواز ہمیشہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسداد پولیو کی مہم مبینہ طور پر ‘دراصل ایک مغربی سازش کا حصہ‘ ہے، جس کا مقصد ‘آئندہ نسلوں کو بانجھ بنانا اور شہریوں کی نجی معلومات جمع‘ کرنا ہے۔