کابل (جیوڈیسک ) افغان صدارتی انتخابات 5 اپریل کوہوں گے ، جس میں موجودہ صدر حامد کرزئی دو مرتبہ صدر منتخب ہونے کے باعث حصہ نہیں لے سکیں گے۔ہفتے کو ہونے والے افغان صدارتی انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہیں ، خطے میں امریکی فوج کی واپسی کے بعد افغانستان کا مستقبل اور امریکا کی نظر میں اس کے بعد کاافغانستان کیسا ہو گا اور امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان طالبان کے اثر رسوخ سے کتنا آزآد رہے گا اور نئے الیکشن کے بعد افغانستان کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلی آئے گی اور پاکستان اوربھارت سے اس کے تعلقات میں کیا موڑ آئے گا، یہ سب معاملات پورے خطے کی سیاست میں تبدیلی کا باعث ہوسکتے ہیں، لیکن خود افغانستان کے اندر انتخابات کے لیے جو معاملات توجہ طلب ہیں ان میں امن و امان، طالبان کی مداخلت اور خواتین کے کردار کو نمایاں اہمیت دی جارہی ہے۔
آج بھی افغان صوبے سرائے پل میں انتخابی امیدوار سمیت نو افراد قتل کر دیئے گئے۔ افغان حکام نے ان افراد کے قتل کا الزام طالبان پر لگایا ہے۔ اس سے پہلے کابل میں الیکشن کمیشن پر بھی حملہ ہو چکا ہے جبکہ دو ماہ قبل صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ کے دوساتھی بھی انتخابی دفتر کے باہر حملے میں مارے گئے۔ دوسری طرف انتخابات میں خواتین کے کردار کو مغربی میڈیا خاصی اہمیت دے رہا ہے۔ صوبائی کونسل کی نشستوں کے لیے دو ہزار سات سو سے زائد امیدواروں میں سے تین سو آٹھ خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جو افغان انتخابی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد ہے، جن میں نائب صدارتی امیدوار حبیبہ سورابی بھی شامل ہیں۔ افغانستان کی صدارت کے لیے گیارہ امیدوارمیدان میں ہیں لیکن اصل مقابلہ افغان قومی اتحاد کے عبداللہ عبداللہ اور آزاد امیدوار اور اشرف غنی احمد زئی کے درمیان ہے۔