دو دن پہلے اخبارات اور خاص کر اخبار نئی روشنی کے آخری صفحے پر( اے ایف پی )کے حوالے سے خبر چھپی ہے کہ سی آئی اے کرزئی حکومت کو ملک میں اثر و نفوذ کے لیے گزشتہ دس سالوں سے زیادہ عرصے تک کروڑوں ڈالر فراہم کرتی رہی ہے یہ رقم ہر ماہ سوٹ کیسوںاور پلاسٹک کے تھیلوں میں بھر کر صدر حامد کرزئی کے دفتر پہنچائی جاتی رہی ہیں نیو یارک ٹائمز نے کرزئی کے سابق چیف آف ا سٹاف خلیل رومن کے حوالے سے بھی لکھا ہے کہ ”اس رقم کو بھوت رقم” کہتے تھے کیونکہ یہ خفیہ طریقے سے آتی تھی اور خفیہ طریقے سے کہیں اور چلی جاتی تھی۔ یہ بات نہیں ہے ہمارے نزیک کبھی بھی اتنی بڑی رقم ویسے ہی سی آئی اے سے نہیں آتی پلائنگ سے آتی ہے اور پلائنگ سے ہی خرچ ہوتی ہے۔
بظاہر وہ بھوت قوم نظر آتی ہے اخبار کے مطابق ایران سے بھی رقم ملی جو جنگی سرداروںاور سیاست دانوں کے ہاتھ لگی تھی ۔ہمارے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تمام ممالک خاص کر طاقتور ممالک کے خفیہ فنڈ ہوتے ہیں جن کو ان ممالک کے خفیہ سیکورٹی کے ادارے اپنے اپنے ملک کے مفادات کے لیے اپنے آلہ کار ممالک کو مختلف طریقوں سے تقسیم کرتے رہتے ہیں پاکستان میں بھی آج کل عدالت میں بھی خفیہ فنڈ کی میڈیا کو تقسیم کی باتیں ہو رہی ہیںتعجب اس بات پر ہے کہ پہلے تو خفیہ فنڈ سے امریکیوں نے حامد کرزئی کو فنڈ دئیے اور گیارہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا دیتے رہے اب کسیانی بلی گھمبا نوچے والی بات ہو رہی ہے۔
امریکیوں نے گیارہ سالوں میں افغانستان کو فتح کرنے کے لیے ہر ناجائز کام کیا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے یقینا اس رقم کا کچھ حصہ حامد کرزئی کے رشتہ داروں،سیاست دانوں اور طالبان مخالف شمالی اتحاد اور دوسرے وار لارڈز میں تقسیم ہوئی ہو گی مگر خدشہ ہے کہ اس رقم کا پیشر حصہ پاکستان میں امریکا کی برپاہ کی ہوئی جنگ میں صرف ہوتا رہا ہو گا کیا پاکستان میں سی آئی اے کا چیف ریمنڈ ڈیوس بغیر پیسے کے اتنی بڑی بڑی کاروائیاں کرتا رہا ہے اس کا قبائلی علاقوں میں پھیلایا ہوا نٹ ورک بغیر پیسے کے چلتا رہا ہے ان دنوں کی اخباری خبروں کے مطابق ریمنڈ ڈیوس نے دوران تفتیش اس بات کا اقرار کیا تھا کہ کراچی کی قوم پرست جماعتوں میں اس نے رقم تقسیم کی تھی۔
America
وہ تو امریکا کا اتنا اہم آدمی تھا کہ اس کی رہائی کے لیے دبئی میں امریکہ کے چوٹی کے چار فوجی جرنلز نے میٹنگ میں رہائی کے لیے زور لگایا تھا مگر ہمار آرمی چیف نے انکار کر دیا تھاکہ یہ معاملہ ہمارے ملک کی عدالت ہی حل کرے گی اس پر ہم نے ایک کالم بھی لکھا تھا ”چار امریکی جرنل اور ہمارا ایک پاکستانی سپہ سالار” مگر بعد میں این آر او زدہ حکومت کے صدر اور وزیر اعظم کی سفارش پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا ڈرامہ دیت کے تحت رچایا گیا اور اخبارات میں آرمی چیف کا بیان بھی آیاتھا کہ ریمڈ ڈیوس کو صدر اور وزیر اعظم کے کہنے پر چھوڑا گیا ہے ہماری امریکا غلام حکومت نے پاکستانیوں کے قاتل کو امریکا جہاز جو دو دن پہلے سے لاہور ایئر پورٹ پرہی انتظار کررہا تھا میں بیٹھا کر پہلے افغانستان پہنچایا گیا بعد میں امریکا بھیجا گیاتھا۔
امریکا کے اخبارات نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ کشمیر میں زلزلے کے وقت امداد کے لیے آنے والے امریکی میرین کی ایک تعداد پاکستان میں غائب ہو گئی تھی اب ہر کوئی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ پاکستان میں سیر و تفر یح کے لیے رُکے تھے یا کوئی اور کام مدنذر تھا تفریح کے لیے تو معروف طریقے اختیار کیا جا سکتا تھا کیا ایک معمولی سی سوچ رکھنے والا پاکستانی بھی خدشے میں مبتلا نہیں ہو گا ؟کہ پیسے کے بغیر یہ جاسوسی کرنے والے لوگ پاکستان میں رہ سکتے ہیں اورکیا یہ پیسہ پڑوس کی افغانستان کرزئی حکومت نے مہیا نہیں کیا ہو گا؟پاکستان میں لاتعداد مقامی این جی اوز اور مغربی این جی اوز بیرونی امداد پر کا م کر رہی ہیں مغربی این جی اوز ملک میں اپنے ملکوں کے لیے جاسوسی کرتیں ہیں۔
عوام نے پاکستانی میڈیا میں خبریں پڑی تھی کی سیودی این جی اوز جو بچوں میں امدادی کام کرتی ہے جاسوسی میں ملوث رہی ہے کیا وہ اپنے جاسوی کرنے والے پاکستانی غداروں کو بھاری رقم مہیا نہیں کرتی ہو گی یہ پیسہ اسے کہاں سے ملتا ہو گا۔اسی سے ملی ہوئی بات پاکستانی قوم کے غدار ڈاکڑ شکیل آفریدی جو اپنے کئے کی سز ا بھگت رہا ہے کی غداری جو اس نے جعلی ویکسین کی مہم چلا کر اُسامہ تک رسائی کے لیے ترتیب دی تھی کیا بغیر پیسے کے چل سکتی تھی جاسوی کے لیے اتنا پیسہ ایک معمولی ڈاکڑ کے پاس کہاں سے آ سکتا ہے؟ صاحبو یہ تو کچھ واقعات ہیں جو کہیں چھپے ہوئے واقعات سے چھن کر پاکستانی میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
Pakistan
جو ہم نے بیان کئے ہیں باقی اللہ ہی جانتا ہے کہاں کہاں اس ملک میں جاسوسی کے اڈے قائم ہیں اور کہاں کہاں مقامی اہلکار اس کاروائی میں شریک ہیں اور ملک دشمنی کر رہے ہیں۔ اب جب کہ امریکا شکست سے دو چار ہے تو نئی نئی باتیں سامنے آ رہی ہیں ایک تو اس کا پہلو ڈس انفارمیشن بھی ہو سکتا ہے جو ہمیشہ سے مغربی حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے تاکہ لوگوں کے ذہنوں کو اپنے مطلب کی طرف موڑا جائے اور اصل بات کو چھپا دیا جائے یا پھر مادہ پرستانہ تہذیب کے لوگ حساب کتاب لگا رہے ہیں کہ جتنا پیسہ افغانستان میں خرچ کیا اتنا عراق کی طرح وصول کیوں نہیں ہوا۔ امریکی پشیماں ہو رہے ہیں کہ اتنی زیادہ رقم خرچ کر دی مگر کامیابی نہیں ہوئی ایک زود پشیماں کا پشیماں ہونے والی بات ہے۔
قارئین ! یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے وہ کمزروں سے طاقت وروں کو شکست سے دوچار کرتا رہتا ہے اور فطرت کے مقاصد پورے ہوتے رہتے ہیں بقول فلسفی شاعر علامہ اقبال:۔ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی. . . یا بندہ صحرائی یا مر د کوہستانی امریکا شکست کھا کر افغانستان سے نکل رہا ہے افغان قوم نے اس سے قبل عالمی طاقت برطانیہ جس کی سلطنت کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا شکست دی تھی عبرت حاصل کرنے کے لیے صرف ایک آدمی کو زندہ چھوڑاتھا۔روس جو دنیا کی سب سے بڑی مشین سمجھا جاتا تھا اور جس ملک میں داخل ہوتا تھا اس سے باہر نہیں نکلتاتھا ذلیل کر کے اپنے ملک سے باہر کیا اب امریکہ جس نے نیو ورلڈ آڈر کا نعرہ لگایا تھا اپنے ٤٨ نیٹواتحادیوں کے ساتھ اگلے سال واپس جا رہا ہے۔
اس کی ساری افغانستان میں لگائی ہوئے خفیہ کی رقم ضائع ہو گئی ہے جس کے حساب کتاب میں اب مصروف ہے ہمارا گمان کہ اب جب ساری دنیا کے ظالموں کو افغان شکست سے دوچار کر رہے ہیں اور افغان جنگ کے دوران جہادی بچے جو ترانے گاتے تھے ان کی تکمیل کا وقت آپہنچنے والا ہے وہ ترانہ یہ تھا۔ روسی بازی ہار چکے ہیںاب کشمیر کی باری ہے. . . چیچن سے کشمیر تلک جنگ ہماری جاری ہے. اللہ ہمار ے پاکستان کی حفاطت فرمائے آمین۔ تحریر : میر افسر امان ا ی میل: [email protected]