اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل کے بعد ایک طرف پاکستان نے افغانستان کے ہمسایوں کی ایک میٹنگ کی میزبانی کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ بھی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں۔
پاکستان کی میزبانی میں ہونے والی میٹنگ میں افغانستان کے کم از کم چھ ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ ابھی تک پاکستان نے طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق بدھ آٹھ ستمبر کی ورچوئل میٹنگ میں میزبان ملک کے علاوہ چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ شرکت کریں گے۔ اس میٹنگ کی صدارت پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کریں گے۔
اس میٹنگ کا مقصد بیان کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ اس مشترکہ کوشش میں ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔ اس کے علاوہ مضبوط اقتصادی رابطے استوار کرنے پر بھی توجہ دی جائے گی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن آج بدھ آٹھ ستمبر کو جرمنی پہنچ کر طالبان کی سخت گیر مذہبی عقائد پر مبنی نئی مگر عبوری حکومت کی تشکیل پر بات چیت کریں گے۔ وہ اس وقت خلیجی ریاست قطر میں موجود ہیں۔ جرمنی پہنچ کر انٹونی بلنکن اپنے جرمن ہم منصب ہائیکو ماس کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد نئی طالبان حکومت پر سفارتی اور اقتصادی دباؤ بڑھائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی صورت حال میں امریکا کے پاس افغانستان کے حوالے سے مشاورت کے لیے وسیع میدان موجود ہے۔ ہائیکو ماس اور انٹونی بلنکن اپنی ملاقات کے بعد جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ کی ورچوئل میٹنگ میں شریک ہوں گے۔ اس میٹنگ کا موضوع بھی افغانستان ہے۔
اطالوی وزیر اعظم ماریو دراگی کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ منگل سات ستمبر کو ہونے والی بات چیت میں، جی 20 کی غیرمعمولی کانفرنس پر اتفاق ہوا تھا۔ اس سمٹ کی حتمی تاریخ کا تعین جلدی ہی متوقع ہے۔ اس مناسبت سے مزید پیش رفت جی ٹوئنٹی کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں ممکن ہے۔
دراگی اور شی جن پنگ نے اپنی گفتگو میں افغان صورت حال پر فوکس کیا۔ مجوزہ سمٹ میں افغانستان کے حالات کے تناظر میں عالمی رہنما گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ ان دنوں جی ٹوئنٹی کی صدارت کا حامل ملک اٹلی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایک مستحکم کابل حکومت کے ساتھ چین کے اقتصادی روابط فروغ پا سکتے ہیں۔ دوسری جانب طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ چین نے افغانستان کی انسانی ہمدردی کے تحت امداد بڑھانے کا وعدہ دیا ہے۔