افغانستان میں استحکام، کیا علاقائی حل ممکن ہے؟

Taliban

Taliban

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاقائی ممالک اور روسی صدر ولا دیمیر پوٹن کی وزیر اعظم عمران خان کو فون کال سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اسلام آباد افغانستان کے مسئلے کے کسی علاقائی حل کے لیے کوشاں ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس حل میں پاکستان اور علاقائی ممالک امریکا اور مغربی ممالک کے مداخلت کو دیکھنے کے خواہاں نہیں لگتے۔ واضح رہے کہ روس اور چین سیمت خطے کے کئی ممالک نے ہمیشہ امریکی موجودگی کو شک کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ کچھ ممالک نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار بھی امریکا اور اس کو مغربی اتحادیوں کو قرار دیا ہے اور وہ خطے میں استحکام کے لئے افغانستان میں سیاسی استحکام چاہتے ہیں۔

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اسلام آباد کی طرف سے بھی اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ وہ واشنگٹن کی مداخلت کے بغیر مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود کا دورہ اور صدر پوٹن کی کال کو بھی انہی کوششوں کی عکاس قرار دیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم ہاوس کی ایک پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی گفتگو میں صدر پوٹن کا بتایا کہ اسلام آباد جنگ زدہ ملک میں ایک وسیع البنیاد حکومت چاہتا ہے اور اس کے لئے مشترکہ لائحہ عمل کا خواہاں ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پر امن افغانستان پاکستان اور خطے کے استحکام کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ایسا حل ممکن تو ہے لیکن اس کی پائیداری کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔

پشارو یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے، ” روس اس وقت ازبکستان، تاجکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کی حمایت کرتا ہے اور اگر افغانستان میں تمام قومیتوں کو حکومت میں نمائندگی دی جاتی ہے تو ماسکو وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کی غیرپختون قومیتوں کو کسی علاقائی حل کے لئے منا لےگا۔‘‘

سرفراز خان کے بقول چین ضرورت کے مطابق سرمایہ کاری کر سکتا ہے، ”اور یوں خطے کے ممالک طالبان کی حکومت کو وسیع البنیاد نمائندگی کے بعد قبول بھی کر سکتے ہیں۔‘‘

افغانستان کو مالی طور پر بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس جنگ زدہ ملک کو سالانہ گیارہ ارب ڈالرز سے زیادہ کی رقم ملک کو چلانے کے لئے درکار ہے۔ خوراک، تعلیم، صحت اور صاف پانی جیسے بینادی منصوبے بھی مغربی ممالک کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتے۔ سرفراز خان کا کہنا ہے کہ اگر علاقائی ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تو مغرب ان کے مخالفوں کی حمایت کرے گا، ”کابل کو پیسے بھی نہیں ملیں گے اور طالبان حکومت کو تسلیم بھی نہیں کیا جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ جنگ زدہ ملک مشرق اور مغرب کے درمیان پیدا ہونے والی نئی کشیدگی کے اسباب میں سے ایک سبب بن جائے گا۔‘‘

کئی ناقدین کے خیال میں معاشی مسائل کی وجہ سے افغانستان میں سماجی مسائل بڑھنے کے امکان ہے، جو استحکام کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ خطے کے ممالک کو افغانستان کی معاشی مدد کے لئے کوئی پیکج لے کر آنا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اگر چین کو اس بات کی گارنٹی مل جائے کہ اسے آسانی سے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی دی جائے گی اور چین کے مغربی خودمختار علاقے میں عسکریت پسندوں کی مدد نہیں کیا جائے گی تو بیجنگ ممکنہ طور پر مالی مدد کر سکتا ہے، جس سے افغانستان کے نوے فیصد مالی مسائل حل ہو سکتے۔‘‘

امان میمن کے بقول اس کے علاوہ اگر بقیہ علاقائی ممالک بھی اپنا حصہ ڈالیں، تو افغانستان مالی طور پر بہتر ہو سکتا ہے، ”اس سے پورے خطے میں خوشحالی آسکتی ہے اور اسلام آباد پر بھی یہ دباو ہو گا کہ وہ کسی ایک گروپ کی افغانستان میں حمایت نہ کرے بلکہ معاشی ترقی کے لئے جنگ زدہ ملک میں سیاسی استحکام کے لئے کام کرے۔‘‘

امان میمن کا کہنا تھا کہ علاقائی ممالک کے لئے یہ بہترین موقع ہے، ”امریکا اور یورپ کو اب افغانستان میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ان کے اندرونی مسائل بہت ہیں۔ لہذا پاکستان اور دوسرے خطے کے ممالک کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ افغانستان کے مسئلے کے لئے کوئی علاقائی حل تلاش کریں۔‘‘

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سربراہ ڈاکٹر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ مغرب کا افغانستان میں محدود کردار ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”افغانستان کو مالی اور معاشی مشکلات درپش ہیں، جس کے لئے اسے اقوام متحدہ سمیت مغرب کی ضرورت ہے۔ تو مغرب کو نکالا نہیں جا سکتالیکن میرے خیال میں ان کا کردار محدود ہو گا۔‘‘

نور فاطمہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اسٹیک ہمیشہ سے افغانستان میں ہائی رہے ہیں، ”اس وقت بھی مہاجرین کا بہاو یا پاکستان کی طرف ہو گا یا پھر ایران کی طرف۔ صدر پوٹن کا فون اس بات کا غماز ہے کہ ماسکو اس مسئلے کو علاقائی طور پر حل کرنا چاہتا ہے، جو مغرب اربوں بلکہ کھربوں ڈالرز سے بھی حل نہ کر سکا۔ لہذا پاکستان کو ان کوششوں میں سبقت لینی چاہیے اور سرگرمی سے علاقائی حل کے لئے کام کرنا چاہیے۔‘‘