افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے مشرقی صوبہ غزنی میں ایک فوجی اڈے پر ایک خودکش کار بم حملے کے علاوہ دوسرے خودکش حملے میں ایک صوبائی سربراہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
افغانستان کے مشرقی غزنی میں ہونے والا خودکش حملہ حالیہ چند ماہ کے دوران افغان سکیورٹی فورسز پر خونریز ترین حملہ ہے۔ یہ خودکش کار بم حملہ صوبہ غزنی کے دارالحکومت غزنی کے مضافات میں واقع ایک فوجی اڈے پر آج اتوار 29 نومبر کو کیا گیا۔ اس حملے میں کم از کم 31 افغان فوجی مارے گئے جبکہ 24 دیگر زخمی ہیں۔ صوبہ غزنی میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
غزنی ہسپتال کے ڈائریکٹر باز محمد ہمت نے قبل ازیں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’ابھی تک 26 لاشیں اور 17 زخمی ہسپتال لائے جا چکے ہیں اور یہ کہ یہ تمام سکیورٹی اہلکار ہیں۔‘‘
صوبہ غزنی کی صوبائی کونسل کے ایک رکن ناصر احمد فقیری نے بھی اس خودکش کار بم حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی ہے۔
افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک خودکش بمبار نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی صوبہ غزنی میں دھماکے سے اڑا دی ہے تاہم انہوں نے ہلاکتوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
دوسرا حملہ افغانستان کے جنوبی حصے میں ایک خودکش بمبار نے صوبہ زابل کے صوبائی سربراہ کی گاڑیوں کے قافلے کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں تین افراد مارے گئے جبکہ 12 دیگر زخمی ہوئے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
صوبہ زابل کے پولیس سربراہ حکمت اللہ کوچائی کے بقول صوبائی کونسل کے سربراہ عطا جان حق بایت اس حملے میں محفوظ رہے اور انہیں معمولی زخم آئے، تاہم ان کے ایک باڈی گارڈ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
ابھی تک اس ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ یہ حملے ایک ایسے موقع پر کیے گئے ہیں جب چند روز قبل ہی افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر میں پہلی مرتبہ براہ راست بات چیت ہوئی، جس کا مقصد ملک میں قریب دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوشش ہے۔