کابل (جیوڈیسک) افغانستان میں طالبان کے دو حملوں میں گیارہ پولیس اہلکاروں سمیت اکیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
طالبان نے افغانستان کے شمالی صوبے بغلان میں سوموار کی شب مقامی پولیس کے ایک چیک پوائنٹ پر حملہ کیا تھا۔اس کے بعد حملہ آوروں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ شروع ہوگئی جو دو گھنٹے تک جاری رہی ہے ۔
بغلان کی صوبائی کونسل کے سربراہ صفدر منشی نے بتایا ہے کہ حملے اور جھڑپ میں گیارہ پولیس اہلکار مارے گئے اور پانچ زخمی ہوگئے ہیں اور حملہ آوروں نے مزید کمک پہنچنے سے پہلے پولیس اہلکاروں سے تمام اسلحہ اور گولہ بارود چھین لیا تھا۔تاہم سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کرکے چیک پوائنٹ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
قبل ازیں طالبان نے ایک اور شمالی صوبے سمنگان کے ضلع درۂ صوف میں واقع ایک گاؤں میں مقامی حکومت نواز ملیشیا پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک عورت سمیت دس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔صوبائی گورنر کے ترجمان صدق عزیزی نے بتایا ہے کہ حملے میں چار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ترجمان کے مطابق طالبان نے عورتوں اور بچوں سمیت مقامی دیہاتیوں کو حملے میں نشانہ بنایا تھا۔یہ گاؤں دور دراز علاقے میں واقع ہے اور یہاں مقامی لوگوں نے مزاحمت کاروں کے حملوں سے بچاؤ کے لیے اپنی مقامی ملیشیا تشکیل دے رکھی ہے۔
طالبان نے ایک بیان میں ان دونوں حملوں کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ ان کے جنگجوؤں نے یہ حملے ایسے وقت میں کیے ہیں جب ان کے نمایندے روسی دارالحکومت ماسکو میں افغانستان کی معروف شخصیات کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔ان میں سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں۔تاہم اس بات چیت میں افغان حکومت کا کوئی نمایندہ شریک نہیں ہے۔
اس دو روزہ بات چیت کا آج منگل کو آغاز ہوا ہے اور یہ مذاکراتی عمل امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے ساتھ طالبان کے مذاکرات سے الگ تھلگ ہے ۔اس کا مقصد افغانستان میں گذشتہ سترہ سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے۔
افغان حکومت نے دوحہ کے بعد ماسکو میں بھی مذاکرات میں خود کو شریک نہ کرنے پر تنقید کی ہے ۔افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ افغان حکومت کو کسی بھی امن بات چیت میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا ہےکہ ماسکو میں اجلاس کی ایک مختلف شکل ہونی چاہیے تھی۔
عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ طالبان امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لیکن اگر ماسکو اجلاس سے حقیقی امن بات چیت کی راہ ہموار ہوتی ہے تو یہ ایک اہم پیش قدمی ہوگی۔
واضح رہے کہ طالبان ایک جانب تو امریکا اور افغان عمائدین کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں اور دوسری جانب وہ کم وبیش روزانہ ہی ملک کے مختلف علاقوں میں تباہ کن حملے کررہے ہیں جن کے نتیجے میں افغان فوج اور سکیورٹی فورسز کا بھاری جانی نقصان ہورہا ہے۔