کابل (اصل میڈیا ڈیسک) شورش زدہ ملک افغانستان میں طالبان نے دو روز قبل بظاہر کنٹرول سنبھالا تھا۔ اب انہوں نے سارے ملک کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے اور خواتین کے حوالے سے بھی اہم اعلان کیا ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے کے دو ہی دن بعد طالبان نے سارے ملک میں عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس اعلان کا ایک بڑا مقصد سرکاری ملازمین کی دفاتر میں واپسی ہے۔ طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عام معافی اس لیے دی گئی ہے تاکہ سب لوگ معمول کی اپنی زندگی پھر سے شروع کر سکیں۔
اس مناسبت سے طالبان کے کلچرل کمیشن کے رکن انعام اللہ سمنگانی کا کہنا ہے کہ طالبان ملک میں صورت حال کو معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی امارات نہیں چاہتی کہ افراتفری کے حالات میں خواتین کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچے۔ طالبان نے خواتین سے کہا ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بنیں۔
یہ امر اہم ہے کہ طالبان افغانستان کے لیے اسلامی امارات کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ سمنگانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک کی خواہش ہے کہ ان کی قیادت کے ساتھ عام لوگ شامل ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام لوگ مسلمان ہیں اور ان پر جبر نہیں کیا جائے گا کہ وہ اسلام کے دائرے میں آئیں۔ ادہر ترکی نے طالبان کے ابتدائی بیان کو مثبت قرار دیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ کے مطابق وہ افغانستان کے سب فریقوں سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
افغان دارالحکومت کابل میں عام لوگ اب پتلون میں دکھائی نہیں دے رہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عام مرد اب طالبان کے پہناوے شلوار قمیض میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ خوف کی موجودگی میں اب معمولاتِ زندگی ایک نئے انداز سے آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ لوگ گھروں سے باہر نکلنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں طالبان کے دور میں معمولاتِ زندگی کیسے ہوں گے۔
مبصرین کے مطابق عام معافی کا اعلان افغانستان میں پھیلی افراتفری کے تناظر میں ہے۔ اس وقت افغان دارالحکومت کابل میں کسی قسم کی جھڑپوں کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ عام لوگ میں خوف و ہراس پیدا ہے۔ کابل پر قبضے کے دوران طالبان نے جیلوں کے دروازے کھول دیے تھے اور اسلحہ خانوں کو بھی لوٹ لیا تھا۔
کابل کے قدرے درمانی اور بزرگ شہریوں کو طالبان کے سابقہ دور میں دی جانے والی سزاؤں کا احوال یاد ہے۔اس دور میں حکمران طالبان نے شرعی سزاؤں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، ان میں کھلے عام موت کی سزا پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ ہاتھ کاٹنے کی سزائیں بھی شامل تھیں۔ طالبان کا سابقہ دور گیارہ ستمبر سن 2001 کو ختم ہوا تھا جب امریکا نے اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دی تھیں۔