افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیر اعظم کی صدارت میں برکس ممالک کی ورچوئل سربراہی کانفرنس نے ”شمولیتی بین افغان مذاکرات” پر زور دیا۔ اور طالبان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال کی اجازت نہ دیں۔
دنیا کی پانچ بڑی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوتوں کے گروپ برکس کی سربراہی کانفرنس جمعرات کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہوئی۔ اس میں گروپ کے دیگر ممالک روس، چین، برازیل اور جنوبی افریقہ کے صدور نے بھی حصہ لیا۔ ان رہنماوں نے گوکہ طالبان کا نام نہیں لیا اور نہ ہی افغانستان کی موجودہ صورت حال کے لیے ان کو مورد الزام ٹھہرایا تاہم وہاں ہونے والے’تازہ ترین پیش رفت‘ پر تشویش کا اظہار کیا اور ‘تشدد کو ترک کرنے نیز صورت حال پرپرامن طریقوں سے قابو پانے” کی اپیل کی۔
کانفرنس کے بعد جاری نئی دہلی اعلامیہ میں برکس رہنماوں نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کے مد نظر وہاں ایک’شمولیتی بین افغان مذاکرات‘ پر زور دیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے،”ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ترجیح دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ جس میں افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دہشت گرد تنظیم کی طرف سے استعمال کرنے، دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے اور دیگر ملکوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کوروکنا نیز افغانستان کے اندر منشیات کی تجارت پر پابندی لگانا شامل ہے۔”
اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کے مطابق نئی دہلی کے نقطہ نظر سے یہ وارننگ حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے بھارت مخالف دہشت گرد گروپوں کے لیے ہے جبکہ بیجنگ کے نقطہ نظر سے یہ تنبیہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کے لیے ہے جو شورش زدہ سنکیانگ خطے میں سرگرم ہے۔
نئی دہلی اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے،”ہم ایک شمولیتی بین افغان مذاکرات کو مستحکم کرنے میں تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں تاکہ ملک میں استحکام، امن عامہ، قانون اور انتظام کو یقینی بنایا جا سکے۔”
خیال رہے کہ افغانستان میں تین روز قبل قائم طالبان کی عبوری حکومت میں شمولیت کا فقدان نظر آتا ہے کیونکہ اس میں ملک کے مختلف طبقات کو نمائندگی نہیں دی گئی ہے۔
نئی دہلی اعلامیہ میں افغانستان میں انسانی صورت حال کے حوالے سے کہا گیا ہے،”ہم وہاں انسانی صورت حال کو حل کرنے کی ضرورت اور انسانی حقوق بشمول خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔”
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں موجودہ بحران ملک پر ‘باہر سے غیر ملکی قدروں کو تھوپنے اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات‘ کا براہ راست نتیجہ ہے۔
پوٹن واحد رہنما تھے جنہوں نے برکس کانفرنس میں افغانستان کا براہ راست ذکر کیا۔ روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق پوٹن نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج اور اس کی حلیف فوجوں کی واپسی سے ایک ‘نیا بحران‘ پیدا ہوگیا ہے اور یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ اس کے علاقائی اور عالمی سکیورٹی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ برکس ممالک کو اس پر توجہ دینی ہوگی۔
روسی رہنما نے کہا کہ افغانستان کے شہریوں کو یہ طے کرنے کا حق حاصل ہونا چاہئے کہ ان کا ملک کیسا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کو اپنے پڑوسی ملکوں کے لیے خطرہ، منشیات کی اسمگلنگ اور دہشت گردی کا منبع نہیں بننا چاہئے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، چین کے صدر شی جن پنگ، جنوبی افریقہ کے صدر سائرل رام فوسا اور برازیل کے صدر جابیر بولسونارو نے برکس کی حصولیابیوں، عالمی سیاست میں اس کے کردار اور اس کے سرگرمیوں کو مزید بہتر بنانے کے سلسلے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
برکس کی یہ تیرہویں سربراہی کانفرنس تھی۔ برکس دنیا کی پانچ بڑی ابھرتی ہوئی طاقتوں کا گروپ ہے، جو عالمی آبادی کے 41 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ عالمی جی ڈی پی کا 24 فیصد اور عالمی تجارت کا 16 فیصد اس گروپ کے پانچ ملکوں پر مشتمل ہے۔
یہ دوسرا موقع تھا جب وزیر اعظم نریندر موودی نے برکس سربراہی کانفرنس کی صدارت کی۔ اس سے قبل سن 2016 میں گوا سربراہی کانفرنس وزیراعظم مودی کی صدارت میں ہوئی تھی۔