افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان سے امریکی فوج کی تعداد میں نمایاں کمی کے اعلان کے بعد شمالی اوقیانوس کے ممالک کے فوجی اتحاد’نیٹو’ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے غیرملکی فوج کی واپسی میں جلد بازی مہنگی پڑ سکتی ہے۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل نے منگل کو انتباہ کیا کہ افغانستان سے اتحادی فوجوں کی جلد بازی واپسی کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ کسی ٹھوس منصوبے کے بغیر افغانستان سے فوجیں نکالی گئیں تو یہ ملک “دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردوں کا اڈہ بن جائے گا۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا “اب ہم ایک مشکل فیصلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم قریب 20 سال سے افغانستان میں ہیں اور نیٹو کا کوئی اتحادی ضرورت سے زیادہ دیر تک نہیں رہنا چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ عجلت اور غیر منظم طریقے سے افغانستان سے فوجوں کا انخلا مہنگا پڑ سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے اڈہ بننے کے خطرے کا سامنا ہے جو ہمارے ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ داعش شام اور عراق کو کھو دینے کے بعد افغانستان اپنی خلافت کا اعلان کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکا کے عن قریب سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال کے آخر تک افغانستان سے تمام امریکی فوجیوںکی واپسی کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان جنگ ایک لاحاصل معرکہ تھا اور ہمیں جلد از جلد اس سے الگ ہونا چاہیے۔
امریکی عہدیداروں نے منگل کو سی این این کو بتایا کہ جلد ہی جو حکم جاری کیا جائے گا اس سے افواج کی تعداد کم ہو کر افغانستان میں 2500 ہوجائے گی اور اسی طرح کی تعداد عراق میں بھی ہو گی بشرطیکہ 20 جنوری کو وہائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے ہی یہ کام کر لیا جائے۔
قائم مقام امریکی وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدے سے رخصت ہونے سے قبل افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کو 4،500 سے کم کرکے 2500 کردیں تاہم صدر ٹرمپ اپنے اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ رواں سال کرسمس تک افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کو واپس بلالیا جائے گا۔
ملر نے پینٹاگون سے منگل کو ایک پریس کانفرنس کے دوران عراق میں فوجیوں کی تعداد 3000 سے کم کرکے 2500 کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عراق اور افغانستان سےفوجوں کی واپسی کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے۔
انہوں نے وضاحت کی15 جنوری 2021 تک افغانستان میں ہماری افواج کی تعداد 2500رہ جائے گا۔ عراق میں ہماری افواج کا حجم بھی مزید کم ہو کر 2500 ہو جائے گا۔ یہ ہمارے اسٹریٹجک منصوبوں اور اہداف کے مطابق ہے اور اسے امریکی عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریاستی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے یا امریکا اپنے مقاصد سے ہٹ گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا اپنا کام کرتا رہے گا۔
درایں اثنا وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے تصدیق کی کہ ٹرمپ کو امید ہے کہ مئی تک تمام امریکی افواج افغانستان اور عراق سے واپس آ جائیں گی۔