افغانستان میں طالبان کا اقتدار مغربی دنیا کے لئے ایک ڈراؤنا خواب مگر ناقابل یقین سچ ثابت ہوا۔ جن کے سروں پر لاکھوں ڈالرز کا انعام مقرر تھا’ جن خاک نشینوں کو برباد کرنے کیلئے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ آج ان ہی میں سے کوئی وزیر دفاع ہے تو کوئی وزیر داخلہ اور کوئی وزیر خارجہ۔ دنیا پر طالبا ن نے یہ ثابت کر دیا کہ جنہوں نے طاغوت وقت کت سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور انہوں نے دنیا کو بتا دیا کہ جو سر خدا کے آگے جھکتے ہیں، جن کے ایمان پختہ ہوتے ہیں، جنہیں دنیا سے رغبت نہیں ہوتی بلکہ موت سے محبت ہوتی ہے’ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ آج کامیابی اور اقتدار کا دوسرا نام طالبان ہے۔
یقینا سکوت کابل نے ہمیں اپنے اسلامی سنہرے دور کے اولین دنوں والے فتح مکہ کی یاد دلا دی۔نبی آخرالزمان محمد مصطفی ۖ ہیں جنہیں انکے اپنوں نے قتل کرنے کی سازش کی اپنے آبائی وطن مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور کیا تھا 8 برس کے طویل عرصے سال بعد آپۖ ایک کثیر فوج کے ساتھ مکہ فتح کرنے پہنچتے ہیں اور مکہ فتح کرلیتے ہیں تو اللہ کے رسول ۖ کا سب سے پہلا اعلان عام معافی کا ہوتا ہے بغیر ایک قطرہ خون بہانے نہ صرف مکہ فتح ہوجاتا ہے بلکہ خود انہیں ستانے اور انکی جان کے درپے دشمنان اسلام تک کو علم معافی دی جاتی ہے۔ سبحان اللہ فتح کابل پر فتح مکہ کی سنت کو زندہ کیا گیا ۔جس جرم کی پاداش میں عوامی افغانی حکومت کو تاراج کیا گیا تھا بعد کے دنوں نائن الیون خود امریکی سی آئی اور اسرائیلی موساد کی کارستانی ثابت ہوئی تھی؟ دراصل سکوت خلافت عثمانیہ کے 65 سال بعد عالم کے کسی حصے پر اسلامی حکومت کو برداشت کرنا یہود و نصاری،عالمی قوتوں کو پسند نہ تھا 90 ء کی دہائی میںافغانستان میں قائم اسلامی حکومت کامیاب نظر آئی تو ناکام اشتراکیت، ملوکیت و سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء کے لئے مستقل خطرہ پیدا ہوسکتا تھا اسی لئے افغانی اسلامی مملکت کو تباہ وبرباد کر دیا گیا۔
حیرت تو اس بات کی ہے کہ جس امریکہ اور برطانیہ نے باقاعدہ مذاکرات و معاہدات کے بعد اقتدار طالبان کے حوالے کیا وہی امن کی دہائی دینے والے ایک نئے افغانستان کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے لئے نت نئی تدبیریں اختیار کررہے ہیں۔ طالبان نے 20برس کی جدوجہد کے بعد اپنی کھوئی ہوئی عظمت وقار و اقتدار حاصل کیا ہے۔ جو دنیا کے بڑے ممالک کو قابل قبول نہیں۔ کیوں کہ طالبان نے خلافت کی احیاء کا اعلان کیا ہے۔ شرعی قوانین کے نفاذ کے وعدے کی تکمیل کی ہے۔ طالبان نے جس خلافت کا وعدہ کیا ہے وہاں فحاشی، بے حیائی، جرائم کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ا نہوں نے مرد و خواتین کے درمیان جو حد فاصل مقرر کی ہے’ وہ شریعت کے مطابق ہے اور جب تک اِن حدود کا لحاظ کیا جائے گا امن و امان برقرار رہے گا۔ دنیا بھر میں بے راہ روی’ خواتین کی بے حرمتی کے واقعات اسی لئے رونما ہوتے ہیں کہ وہ حد سے گزر جاتے ہیں۔ طالبان کا 20برس پہلے کا جو پانچ سالہ دورِ اقتدار تھا اس کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسا دور تھا جس میں جرائم پر اس قدر کنٹرول ہوچکا تھا کہ اوقات نماز میں لوگ اپنے کاروبار کھلے چھوڑ کر مساجد کو چلے جاتے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس کھلے ہوئے مال کی طرف نظر اٹھاکر دیکھ سکے۔
طالبان کا تختہ الٹ جانے کے بعد چوری، ڈکیتی، خواتین کی بے حرمتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ہر مسلم ملک میں مغربی ممالک کی فوج ان کی حفاظت کے بہانے تعینات ہیں۔ ان ممالک کی فوج بھی تیار کی جاتی ہے’ انہیں تربیت بھی دی جاتی ہے’ ان کے ساتھ مشترکہ مشقیں بھی کی جاتی ہیں اور یہ فوج کس قدر نااہل ثابت ہوتی ہے’ اس کا ثبوت افغان فوج دے چکی ہے۔ جنہیں 20برس تک مغرب نے تربیت دی اور اسی فوج نے طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔ہر مسلم ملک کے اہم اداروں کے اہم عہدوں پر مغربی ممالک کے شہری فائز ہیں جو اپنے اپنے ملک کے لئے جاسوسی کرتے ہیں۔
طالبان کی کامیابی ان کے عزائم اور عقیدے کی جیت ہے۔ جس کا اعتراف امریکہ نے بھی کیا ہے۔ مصلحتاً امریکہ نے اپنے بچے کچے سپاہیوں کی جان بچانے’ مزید مالی خسارے سے بچنے کے لئے افغان سرزمین سے واپسی تو مکمل کرلی مگر اسے اپنی خفت چھپانے اور دنیا کو دکھانے کیلئے افغانستان میں ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ طالبان’ حکومت چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ اور ان کی وجہ سے اس خطہ میں بدامنی اور تخریبی سرگرمیوں کو بڑھاوا ملے گا۔طالبان کی نئی حکومت میں شامل سبھی وزرا بین الاقوامی برادری کے لئے انعامی دہشت گرد ہیں۔
خود وزیر اعظم ملاحسن اخوند کو سب سے خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا تھا جن کے حکم پر 2001ء میں بامیان میں بدھا مجسموں کو نقصان پہنچایا گیا تھا وہ طالبان کے روحانی پیشوا ملا ہیبت اللہ کے دست راس ہیں۔ جیسے سراج الدین حقانی جن پر الزام ہے کہ انہوں نے کابل میں ہندوستانی سفارت خانے پر حملہ کیا تھا۔ جس میں 58افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حامد کرزائی کے قتل کی ناکام سازش میں وہ ملوث بتائے جاتے ہیں۔
ملا محمد عمر کے بیٹے ملا یعقوب بھی ہیبت اللہ اخوند زادہ کے شاگرد خاص ہیں جو پہلے طالبان ملٹری کمیشن کے سربراہ رہ چکے ہیں’ اب وہ وزیر دفاع ہیں۔ اور ملک کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر جن سے امریکی سپاہی کانپتے تھے۔ آج سی آئی اے کے سربراہ سے بات چیت کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ وقت نے انہیں ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا جسے مقام رشک بھی کہا جاسکتا ہے۔ طالبان کے دوسری بار اقتدار سنبھالنے پراقوام عالم جہاںتشویش کا شکار ہے وہیں اس کے کشمیراور خالصتان تحاریک پر پڑنے والے اثرات سے بھارت بھی شدید خائف ہے کیونکہ افغانستان اور کشمیر کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور لسانیاتی ہم آہنگی کوئی نئی نہیں بلکہ یہ صدیوں پرانی ہے،یاد رہے کہ کشمیر میں عبداللہ خان اسحاق نے پہلی بار 18ویں صدی کے وسط میں حکومت قائم کی تھی جس کے بعد افغان تقریباً 66 برس تک کشمیر کے حکمران رہے ۔کیااب طالبان کی نئی پالیسیاں افغانستان اور ہمسایہ ممالک کے لئے امن کی علامت بن پائیں گی یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہاںیہ بات ذہن نشین رہے کہ کشمیرسے متعلق بھارت ایک مرتبہ پھرویسی ہی تشویش میں مبتلا ہے جیسی 1996ء میں ظاہر کی گئی تھی۔
اب یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ طالبان کشمیر کی مسلح تحریک میں پھر شامل ہوسکتے ہیں حالانکہ اس کے پاس 90ء کی دہائی میں کسی افغان جنگجو کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کا کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی اس بات کے شواہد ہیں کہ کشمیریوں نے کبھی ان سے مددطلب کی ہو۔افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں تعمیری مصروفیات اور پائیدار انسانی مدد دیرپا امن اور استحکام کیلئے انتہائی ناگزیر ہے۔ امارات اسلامی ایک ایسی سچائی بن کر ابھری ہے جسے اب دنیا کو بہرصورت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی خودمختاری’ آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنا ہوگا۔عالمی طاقتوں کے پاس طالبان کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ اسی سے خطے میں امن کی ضمانت ملے گی۔