افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ برس اگست میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ کچھ یونیورسٹیاں کھول دی گئی ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد فی الحال کم دکھائی دے رہی ہے۔
گزشتہ برس امریکی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور قریب قریب سبھی تعلیمی ادارے افراتفری کی صورت حال میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔ ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا تھا کہ طالبان کی حکومت میں لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع میسر نہیں آئیں گے۔
ان تعلیمی اداروں میں خاص طور پر سیکنڈری اسکول برائے طالبات جیسے ادارے شامل تھے۔ اب پہلی مرتبہ پبلک یونیورسٹیاں کھلنی شروع ہو گئی ہیں۔ گو ابھی ان کی تعداد بظاہر کم ہے اور ان میں پہنچنے والی طالبات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
حکام نے لغمان، قندھار، نمروز، فراہ اور ہلمند کی یونیورسٹیوں کے باضابطہ کھولے جانے کی تصدیق کی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں ماہ کے دوران کچھ اور شہروں کی جامعات کو بھی کھول دیا جائے گا۔ حکام کے مطابق فروری کے اختتام پر قریب سبھی یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر فعال کر دیا جائے گا۔
ایک تجزیہ کار نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان حکومت کی جانب سے ملکی یونیورسٹیوں کو کھولنے کا فیصلہ انتہائی اہم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسے اقدامات سے ہی اِن کی حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔
طالبان یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں طالبات کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ وہ کمروں میں علیحدہ بیٹھیں گی اور نصاب بھی اسلامی قوانین کے تحت ہونا ضروری ہے۔ پُرمسرت موقع
افغان صوبے ننگرہار کی یونیورسٹی کی طالبہ زرلاشتا حقمال نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی کھلنے کو ایک پرمسرت موقع قرار دیا۔ وہ ننگرہار یونیورسٹی میں قانون اور پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ طَلَبہ میں ایسی فکر پائی جاتی ہے کہ یونیورسٹی کہیں دوبارہ بند نہ کر دی جائیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مقامی نمائندے نے لغمان یونیورسٹی میں بدھ دو فروری کو طالبات کے ایک گروپ کو داخل ہوتے دیکھا جو برقعوں میں ملبوس تھا۔ نوجوان طلبا بسوں اور ٹیکسیوں پر سوار ہو کر جامعات پہنچے اور ان کے چہروں پر خوشی عیاں تھی۔ یہ طلبا مقامی شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔
صحافیوں کو لغمان یونیورسٹی اور دوسری کھولی جانے والی جامعات کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی تعداد معمول سے بہت کم تھی اور طالبان جنگجو مرکزی دروازوں پر محافظ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ایک طالب علم ملک صمدی کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں تعلیم شرعی قوانین کے مطابق فراہم کی جائے گی۔ مناسب مگر اہم فیصلہ
منگل پہلی فروری کو اقوام متحدہ کے مقامی مشن نے بھی یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کے فیصلے کو ایک اہم قدم قرار دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ جامعات کھولنے کا فیصلہ طالبان حکومت نے ناروے میں مغربی حکام کے ساتھ اولین مذاکرت کے ایک ہفتے کے بعد کیا ہے۔
ابھی تک طالبان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن طالبان کی حکومت کو تسلیم ان مثبت اقدامات کے تناظر میں کیے جانے کا اظہار سامنے آ چکا ہے۔ دوسری جانب طالبان اس مرتبہ حکومتی عمل میں لچکدار رویہ اپنانے کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں۔