امریکہ دنیا کی تیسری سپرپاورہے جسے غیور افغانی پٹھانوں نے منہ کے بل اوندھاگرایااور عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے اپنی سرزمین چھوڑنے پہ مجبور کردیاہے۔امریکہ نے بھی برطانیہ اور رُوس کی طرح بہت سہانے خواب دیکھے تھے کہ وہ کہساروں کی سرزمین پہ مستقل قبضہ جماکر افغانستان کی جغرافیائی اہمیت و حیثیت کافائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ وہاں کے وسائل پہ بھی ہمیشہ کے لیے قابض رہے گالیکن اس شعر کے مصداق
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے؟ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے!
وہی ہواجو اس باب میں سب جہانوں کے مالک قادر مطلق کو منظور تھا۔آج سے کوئی بیس اکیس برس قبل جب امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کو جواز بنا کر افغانستان کے خلاف باقاعدہ جنگ کااعلان کیاتو ایک سابق روسی جرنیل جو افغان روس وار کارعملی طور پہ حصہ رہا اور اپنے ملک کی عبرت ناک شکست کا چشم دید گواہ تھا نے ایک کمزور ملک یعنی افغانستان پہ چند ہفتوں میں اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھنے کے خمار میں مبتلا امریکہ کو ایک پیغام کے ذریعے متنبہ کیا کہ افغانستان کو میٹھا لقمہ سمجھ کرہڑپ کرکے ہضم کرنے کاخواب امریکی اپنے دِل سے نکال دیں بلکہ وہ اگر ایسا کرتے ہیں توایک ایسی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے کہ جس سے باہر نکلنامحض مشکل ہی نہیں بل کہ ناممکن ہوجائیگا۔
مجھے آج وہ روسی جرنیل اور اس کی امریکہ بہادر کو کی گئی نصیحت اور انتباہ اس لیے یادآیا کہ اگر امریکہ 2001میں افغانستان پہ حملہ کرنے کی غلطی نہ کرتااور سابق روسی جرنیل کی نصیحت کو پلے باندھ لیتاتوآج یہ ذلت,رسوائی اور جگ ہنسائی امریکہ کا مقدر کبھی نہ بنتی لیکن کہا جاتا ہے کہ جب امریکی کرتادھرتاؤں تک یہ پیغام پہنچا توانھوں نے اس روسی جنرل کی بات کا باقاعدہ مذاق اڑایااور کہتے رہے کہ ہم نہ برطانیہ ہیں اور نہ ہی روس کہ نہتے افغانیوں سے ہار مان کر یا شکست کھا کر بزدلوں کی طرح دشمن کو پیٹھ دکھاکر بھاگ پڑیں گے۔
مگر آج وقت نے ثابت کیا کہ افغانستان سپر پاورز کا وہ قبرستان ہے کہ جدھر ان کے سب ارمان اور خواب کرچی کرچی اور ریزہ ریزہ ہوکر بکھر ے ہوئے ہیں۔ آج امریکہ کی واضح شکست کی صورت میں یہ باقی دنیا ، دوسری بڑی طاقتوں اور سرکش قوتوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ یکے بعد دیگرے تین سپرپاورز کاغرور خاک میں ملنے کے بعد دنیا افغانستان کے حوالے سے اپنے خیالات اور خواہشات کوتبدیل کرے وگرنہ اب یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ جو بھی کوئی طاقت افغانستان سے ٹکرانے کی کوشش کرے گی ذلت آمیز شکست اس کا نصیب ٹھہرے گی۔
امریکی فوج کی افغانستان سے مکمل انخلاسے قبل ہی افغانستان کے اکثر علاقوں پہ طالبان کے قبضہ نے امریکہ کی کھلی شکست کاجہاں پول کھول کے رکھ دیاہے وہاں یہ بات امریکی جنگی پالیسی سازوں کے لیے بے حد شرمندگی کاباعث ہے کیوں کہ امریکہ نے توبارہا یہ دعوے کیے کہ اب طالبان کاوجود ختم ہو چکا۔امید کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی مؤثر طاقتیں چھوٹے ممالک کے لیے اپنی پالیسیاں تبدیل کریں گے اور انھیں کمزور تصورکرکے ان پہ جنگ مسلط کرنے کے بجائے دنیا میں انھیں سکھ چین سے زندہ رہنے کاراستہ فراہم کریں گے۔وہ امریکہ جسے اپنی طاقت پہ انتہا کاگھمنڈ اور غرور تھا آج دنیا سے اپنے شکست خوردہ چہرے کو چھپانے پہ مجبور ہے