دوحہ (جیوڈیسک) افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والی 2 روزہ غیررسمی بات چیت میں طالبان کی جانب سے سخت شرائط سامنے آئی ہیں۔
برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق پہلے روز طالبان کی جانب سے مذاکرات کی بحالی کیلیے افغانستان سے امریکی و اتحادی فوج کے انخلا کے حتمی شیڈول کے اعلان، اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے طالبان کو نکالنے، منجمد اثاثے بحال کرنے، دنیا کے کسی بھی حصے میں بات چیت کا عمل جاری رکھنے کیلئے طالبان پر عائد سفری پابندیاں ختم اور قطرمیں باقاعدہ دفترکھولنے کی اجازت دینے کی شرائط سامنے آئی ہیں۔
ہفتے کو دوحہ کے ہوٹل میں طالبان نمائندوں اور افغان صدارتی مشیر کی قیادت میں وفد کے درمیان مذاکرات کی بحالی کیلئے غیررسمی بات چیت ہوئی جس کے بعد طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملاقات ہمارے لئے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ہمارے خیالات کے اظہار کا موقع تھی۔
غیررسمی بات چیت میں افغان حکومت کی جانب سے باضابطہ کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا تاہم افغان صدارتی مشیر ملالئی شنواری، سابق وزیر داخلہ داؤدزئی اور سابق وزیرخزانہ انوار احدی بھی بات چیت میں شریک تھے۔ انوار احدی نے کہا کہ طالبان نے براہ راست مذاکرات میں فی الحال کوئی دلچسپی ظاہر نہیںکی۔ سردست یہ نہیں کہہ سکتے کہ مذاکرات کاعمل کس طرح آگے بڑھ سکتا ہے تاہم امید ہے کہ آج کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔
افغان حکومت اور طالبان کے مابین امن بات چیت کے جلد انعقاد کیلئے پاکستان اور 4 ملکی رابطہ کمیٹی میں شامل دیگر ممالک نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ اس حوالے سے افغان طالبان سے بھی رابطے قائم کئے گئے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چینی حکام پر مشتمل 4 رکنی رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ افغان مفاہمتی عمل میں جلد اور ٹھوس پیشرفت کیلئے کوششیں تیز کی جائیں اور افغان طالبان کو جلد از جلد مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔
تاہم ذرائع کے مطابق اس عمل کی راہ میں افغان طالبان کی بعض سخت شرائط حائل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ امن مذاکرات کیلئے افغان طالبان سے رابطے کئے جا رہے ہیں اور جو باتیں ابتک سامنے آئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان افغان حکومت سے امن مذاکرات کیلئے زیادہ مائل نظر نہیں آتے بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ بات چیت امریکہ سے ہونی چاہئے۔ طالبان مذاکراتی عمل کے سلسلے میں قطر میں اپنے دفتر کے باقاعدہ طور پر کھولے جانے کے بھی خواہشمند ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ 4 ملکی رابطہ کمیٹی کا حالیہ اجلاس کابل میں 18 جنوری کو ہوا۔ آئندہ اجلاس اسلام آباد میں 6 فروری کو ہو گا۔ پاکستان کے علاوہ دیگر سہولت کار ممالک امریکہ اور چین کی بھی خواہش ہے کہ بات چیت جلد شروع ہو تاکہ افغانستان میں لڑائی اور خونریزی کا خاتمہ ہو اور وہاں دیرپا امن کے قیام کی راہ ہموار ہو۔ ذرائع کے مطابق4ملکی کمیٹی میں شامل حکام رکاوٹوں کے باوجود افغان امن مذاکرات کے جلد انعقاد کیلیے پرامید ہیں۔