افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) طالبان کے ہاتھوں سقوط کابل سے ایک دن پہلے وائٹ ہاؤس کے سیچویشن روم کی میٹنگ سے لیک ہونے والی دستاویزات نے بائیڈن انتظامیہ کی امریکی اور افغان شہریوں کو نکالنے میں عدم دلچسپی کو اجاگر کیا۔ یہ وہ افغان تھے جنہوں نے طالبان کے خلاف 20 سالہ جنگ میں امریکا کی مدد کی تھی مگر مشکل وقت میں امریکا انہیں طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ گیا۔
پندرہ اگست 2021 کو طالبان کے افغان دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالنے سے چند گھنٹے قبل بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام بڑے پیمانے پر شہریوں کے انخلاء سے متعلق بنیادی طریقہ کار پر تبادلہ خیال اور انتظامات ترتیب دے رہے تھے۔
ان کے قریبی لوگ مایوس اور شکوک وشبہات میں مبتلا تھے کہ انتظامیہ بہت زیادہ میٹنگز کر رہی ہے لیکن بیورو کریسی جمود کا شکار ہے اور فیصلہ سازی میں عجلت کا فقدان ہے۔
دوسری طرف افشا ہونے والی دستاویزات میں لفظ “فوری طور پر” ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہلکار 14 اگست کی دوپہر کو طالبان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے سے ایک دن پہلے اپنے منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے لیے ہچکچاہٹ میں تھے۔
مثال کے طور پر حکام نے فیصلہ کیا کہ انہیں مقامی افغان عملے کو مطلع کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ امریکا منتقل ہونے کے لیے اپنا اندراج شروع کرے۔ جیسا کہ دستاویز میں بتایا گیا ہے اور یہ واضح نہیں کیا کہ کون سے ممالک انخلاء کے لیے ٹرانزٹ پوائنٹس کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
’ایگزیئز‘ ویب سائٹ کے جائزے کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کا اندازہ آخری لمحات کے افراتفری کے مناظر کے بارے میں درست نہیں تھا کیونکہ افغان فوجی طیاروں سے گرے اور ایک خودکش بم حملہ ہوا جس میں حامد کرزئی ہوائی اڈے کے دروازے کے باہر 13 امریکی فوجی اور درجنوں افغان ہلاک ہوئے۔
اسی ضمن میں ’دی اٹلانٹک‘ نے اس ہفتے رپورٹ کیا کہ ہزاروں افغان اب بھی افسر شاہی کے جہنم میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس ڈر سے کہ وہ طالبان جن سے وہ برسوں سے لڑ رہے ہیں ان کا شکار ہو جائیں گے۔ اس ماہ کے آخر میں کانگریس 12 افراد پر مشتمل دو طرفہ کمیٹی کے ارکان کا تقرر کرے گی جو جنگ کا مطالعہ کرے گی اور 9/11 کمیشن کو اسی طرح کی رپورٹ جاری کرے گی۔
ایگزیئز نے قومی سلامتی کونسل سے نمائندوں کے چھوٹے گروپ کی میٹنگ کے حوالے سے “نتائج کا خلاصہ” حاصل کیا ہے۔ یہ گروپ وزراء کے مختلف ارکان کے سینیر معاونین پر مشتمل ہے اور عام طور پر نائبین یا ڈائریکٹرز کے اجلاسوں کی بنیاد رکھتا ہے یا ان کے اعلیٰ افسران کے ذریعے پہلے سے لیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے عملی تفصیلات پیش کرتا ہے۔
دستاویز “افغانستان سے انخلا” سے متعلق تھی اور یہ ملاقات واشنگٹن کے وقت کے مطابق 14 اگست کی سہ پہر 3:30 سے 4:30 بجے تک ہوئی۔
اس وقت طالبان جنگجو کابل میں اتر رہے تھے۔ اس اجلاس کی صدارت قومی سلامتی کونسل کے ایک اہلکار لز شیروڈ رینڈل نے کی اور اس میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے ڈپٹی چیئرمین جنرل جان ہائٹن سمیت کئی ایجنسیوں کے سینئر حکام نے شرکت کی۔
میٹنگ کے نوٹوں میں آخری لمحات کی ان اہم کارروائیوں کی تعداد کو اجاگر کیا گیا ہے جو بائیڈن انتظامیہ کابل کے سقوط اور سابق افغان صدر اشرف غنی کی ان کے محل سے ہیلی کاپٹر میں پرواز سے چند گھنٹے قبل کر رہی تھی۔ اجلاس میں کن کارروائیوں کی نشاندہی کی گئی؟
“ریاست ٹرانزٹ پوائنٹس کے طور پر کام کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ممالک کے تعین کے لیے کام کرے گی۔ کراسنگ پوائنٹس کو امریکی شہریوں، افغان شہریوں، تیسرے ملک کے شہریوں اور دیگر انخلاء کے لیے جگہ دینے کے قابل ہونا چاہیے۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ امریکی سفارت خانہ مقامی طور پر بھرتی کیے گئے اہلکاروں کو مطلع کرے گا کہ وہ امریکا جانے میں اپنی دلچسپی کا اندراج شروع کریں اور روانگی کے لیے فوری طور پر تیاری کریں۔
اوباما انتظامیہ کے دوران افغانستان میں نیٹو کے نائب نمائندے مارک جیکبسن نے Axios کو بتایا کہ اتنی زیادہ منصوبہ بندی، ترجیح اور اہم سوالات کو حل نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ جب کابل طالبان کے ہاتھ جانے والا تھا تب بھی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی دکھائی نہیں دی گئی۔