جنیوا (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا جلد مکمل ہو جائے گا۔ ایسے میں چین نے افغانستان میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور دوسرے ممالک کی افواج کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
جنیوا شہر میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں چین نے افغانستان میں امریکی اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے قیام کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور دوسرے منفی اقدامات کے تناظر میں ذمہ داری کے تعین کو اہم قرار دیا ہے۔
کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر نے ایسے اقدامات کا ارتکاب کرنے پر امریکی فوج کے ساتھ ساتھ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی رکن ریاستوں کی افواج پر ذمہ داری عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس کونسل کے ہنگامی اجلاس میں چینی سفیر چن شو نے کہا کہ افغانستان میں سرزد کی جانے والی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور دوسرے ممالک کی افواج کا احتساب وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ہنگامی سیشن میں اس پہلو سے لیا جانے والا کوئی بھی فیصلہ ذمہ داری کے تعین کی سمت میں ایک اہم قدم ہو گا۔
انسانی حقوق کی کونسل میں چینی سفیر چن شو نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی کہا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا عَلم اٹھانے والے امریکا اور اتحادی ممالک کی افواج نے دوسرے ملکوں میں مداخلت کرنے کے بہانے تراش رکھے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج کشی کے بعد یہ اپنے اپنے حکومتی و انتظامی ماڈل ان ملکوں پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں کی زبانیں، ثقافتیں اور تاریخی پس منظر مختلف ہوتے ہیں۔ چن شو کے مطابق اس زور زبردستی سے ان ملکوں کی عوام کے مصائب اور تکالیف دگنا ہو جاتے ہیں، جن میں فوج کشی کی جاتی ہے۔
چین نے انٹرنیشل کمیونٹی سے کہا ہے کہ افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان پر پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ان کی ‘مثبت کوششوں‘ کی حمایت اور تعریف بہت ضروری ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں واضح کیا کہ افغانستان میں اب تک ہونے والے ‘مثبت اور حوصلہ افزا فیصلے‘ بین الاقوامی کمیونٹی کی تعریف کے طلب گار ہیں۔
اس بیان میں کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے پرامن تعمیر نو کے عمل کا عزم مثبت سمت کا تعین اور عوام کی فلاح و بہبود میں اضافہ کرنے کی کوششیں بلاشبہ عالمی حمایت چاہتی ہیں۔
چینی وزارتِ خارجہ نے مزید کہا کہ ہر قدم پر پابندیاں عائد کرنے سے افغانستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے منفی اور خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔ بیجنگ حکومت نے اس وقت بھی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کے بجائے کھلا رکھا ہوا ہے اور طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے۔