امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگی جرائم کی تفتیشی کارروائیاں صرف طالبان اور داعش تک محدود رکھے گی اور امریکا اس کی تفتیش میں شامل نہیں ہوگا کیونکہ اُس کے پاس وسائل کی کمی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگی جرائم کے حوالے سے تحقیقات میں امریکا کی بجائے صرف طالبان اور داعش پر توجہ مرکوز کی جائے گی، کیونکہ وسائل کی کمی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کی شدید نکتہ چینی کی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے پیر کے روز کہا کہ وہ افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات دوبارہ شروع کرانا چاہتے ہیں لیکن اس میں امریکی فوجیوں کی تفتیش کی بجائے صرف طالبان اور اسلامک اسٹیٹ(خراسان) پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
کریم خان نے جون میں نئے چیف پراسیکیوٹر کا حلف لیا تھا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ طالبان اور داعش (خراسان) کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کا فیصلہ افغانستان میں حالیہ پیش رفت کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ چونکہ طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھال لیا ہے ایسے میں ان کی حکومت کے تحت جنگی جرائم کی کسی آزادانہ تحقیقات کی توقع نہیں ہے۔
کریم خان کا کہنا تھا،”ملک کے اندردرست اور موثر تفتیش کا کوئی امکان نہیں ہے۔”
عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش گزشتہ 15برس قبل شروع ہوئی تھی۔ گزشتہ برس اس نے جنگی جرائم کے حوالے سے مکمل تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن افغان حکومت نے یہ کہتے ہوئے تحقیقات رکوا دی تھیں کہ وہ خود ہی اس کی تحقیقات کررہے ہے ۔ نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان سے قبل فٹاو بینسوڈا نے سن 2020 میں مکمل تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
آئی سی سی کے ججوں کی جانب سے منظور کردہ ٹریبونل کو افغان حکومتی فورسز، طالبان، امریکی فوجیوں اور انٹلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے افغانستان میں سن 2003 سے ہونے والی زیادتیوں کی تفتیش کا کام سونپا گیا تھا۔ لیکن افغان حکومت کا کہنا تھا کہ و ہ خود یہ کام کرنا چاہتی ہے اس لیے تفتیش کو مؤخر کردیا گیا۔
نئے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے ایک بیان میں کہا کہ چونکہ طالبان نے حکومت سنبھال لی ہے اس لیے افغانستان کی جانب سے تفتیش کو مؤخر کرنے کے حوالے سے”صورت حال میں واضح تبدیلی” آچکی ہے۔
دی ہیگ میں سن 2002 میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت صرف اسی صورت میں مداخلت کرتی ہے جب کوئی رکن ملک جنگی جرائم، انسانیت سوز جرائم یا نسل کشی کے ملزمین پر مقدمہ چلانے سے قاصر ہو یا ایسا کرنے سے انکار کردے۔
کریم خان کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کے محدود وسائل کی وجہ سے تفتیش کا دائرہ صرف طالبان اور داعش کے جرائم تک محدود رکھا جائے گا۔ انہوں نے تاہم کہا کہ تفتیش کے جن پہلوؤں پر توجہ نہیں دی گئی، میرا دفتر ان ثبوتوں کی حفاظت کی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے گا۔
انہوں نے کہا، ” میں نے افغانستان میں اپنے دفتر کو ہدایت دی ہے کہ وہ تحقیقات میں مبینہ طور پر طالبان اور داعش کے جرائم پر توجہ کو مرکوز رکھتے ہوئے تفتیش کے دیگر پہلوؤں کو ترجیح نہ دیں۔”
ان کا کہنا تھا،” طالبان اور داعش کی جانب سے کیے گئے مبینہ جرائم کی نوعیت اور یہ جس سطح پر انجام دیے گئے اس کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور ہم قابل اعتماد مقدمات بنانا چاہتے ہیں جن کو کسی شک و شبے سے بالاتر ہو کر عدالت میں ثابت کیا جا سکے۔”
کریم خان نے خصوصاً 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے مہلک حملے کا ذکر کیا جس کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی۔ اس حملے میں 13 امریکی فوجی اہلکار اور 100 سے زائد افغان شہری مارے گئے تھے۔
انسانی حقوق کے علمبرداروں نے افغانستان میں امریکا کی مبینہ جنگی جرائم کوتحقیقات سے الگ رکھنے کے آئی سی سی کے فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے اورمتنبہ کیا ہے کہ اس فیصلے سے امریکا کو ”جرائم سے معافی” مل سکتی ہے۔
امریکی مظالم کا شکار ہونے والوں کے مقدمات کی نمائندگی کرنے والی سینئر وکیل کیتھرین گالاگھر کا کہنا تھاکہ وہ آئی سی سی کے اس فیصلے سے ”حیرت زدہ” ہیں۔
کیتھرین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نئے چیف پراسیکیوٹر اپنی نو سالہ مدت کا آغازایک ”غلط” طریقے سے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا،” امریکا نے زیادتیوں کی اپنی روایت کی مناسب تفتیش کرنے سے انکار کردیا ہے اور آئی سی سی کے رکن ممالک بھی ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔” کیتھرین کا کہنا تھا کہ امریکا کی مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش نہ کرنے کے فیصلے سے غلط پیغام جائے گا اور دیگرجنگی مجرم بھی خود کو مطمئن سمجھیں گے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نمائندہ سمیرہ حمیدی نے آئی سی سی سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کابل میں امریکی ڈرون حملے میں کم از کم دس عام شہریوں کی ہلاکت کے مدنظر ایسا کرنا اور بھی ضروری ہے۔
سمیرہ حمیدی نے ٹوئٹر پر لکھا،” کابل میں امریکی ڈرون حملے کے مدنظر، جس میں گیارہ بچوں سمیت بے گناہ شہری ہلاک ہوئے، آئی سی سی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور امریکا کو اس کا ذمہ دارٹھہرانے کی ضرورت ہے۔”