سلطان محمود تغلق کی موت کے بعد ١٤٥١ء میں لاہور اور سرہند کے پٹھان صوبے دار بہلول لودھی نے دہلی پر قبضہ کر کے ایک بار پھر مضبوط کومت قائم کر دی۔ اس نے جونپور بھی فتح کر لیا یہاں ایک آزاد حکومت بن گئی تھی۔گو کہ یہ ایک چھوٹی حکومت تھی۔لودھی خاندان میں سکندر لودھی جو بہلول لودھی کا بیٹا تھا،نے زیادہ شہرت حاصل کی۔آگرہ شہر کی بنیاد اس نے ڈالی تھی۔اس زمانے میں آگرہ کا نام سکندر آباد تھا۔شہر آباد ہونے کے بعد سکندرلودھی نے دہلی کے بجائے آگرہ کو اپنا دالحکومت بنایا۔وہ ایک سادہ بادشاہ تھا شاہی لباس میں راحت محسوس نہیں کرتا تھا۔ہر وقت رعایا کے ترقی و تربیت میں مصروف رہتا تھا۔جاڑے میں غریبوں میں کپڑے اور شالیں تقسیم کرتا تھا۔ہر چھ ماہ بعد محتاجوں کی فہرست اس کے سامنے پیش کی جاتی تھی جن کو وہ کھانا کھلاتا تھا۔ اس نے غربت ختم کرنے کے ہر وہ طریقے اختیار کیے جو دہلی کے بادشاہوں کا وطیرہ تھا۔سکندر لودھی میںایک واقعہ سے ایسا کہ معلوم ہوتا ہے نیکی اس کے اندر رچی بسی تھی۔ اپنے بھائی باریک شاہ سے لڑائی کر رہا تھا کہ ایک فقیر اس سے ملا اورکہاکہ اس جنگ میں تمھاری فتح ہو گی۔ سنکدر لودھی نے فقیر کا ہاتھ چھڑک کر کہا کہ جب دو مسلمانوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہو تو ایک حکم نہیں لگانا چاہیے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جس میں اسلام کی خیر ہو وہ کام ہو۔ علماء کی قدر کرتا تھا شہریعت کے فیصلوں کا پابند تھا۔سکندر لودھی کے زمانے میںہندوئوں نے فارسی زبان پڑھناشروع کی تھی۔سکندر کے بعد اس کا بیٹا ابراھیم لودھی تخت پر بیٹھا ۔مگر یہ نااہل حکمران تھا۔ ١٥٢٦ء میں بابر نے کابل سے آکر ابرھیم لودھی کو پانی پت کے میدان میں شکست دی۔
سلاطین دہلی اور اس دور میں اسلامی تہذیب شہر شہر پہنچ گئی۔سری نگر،جونپور،ٹھٹھہ احمد آباد مانڈوو آگرہ، بیدر، بیجاپور اور احمد نگر کے شہر وجود میں آئے۔ یہ شہر علم و ادب کا مرکز بن گئے۔ فن تعمیر نے بڑی ترقی کی۔ حیدر آباد میں چار میناراور لکھ مسجد بنی۔ بیدر میں محمدود گاوان کا مدرسہ تعمیر ہوا جوابھی بھی موجود ہے۔ بیجا پور میں ابراہیم عادل شاہ کا مقبرہ بنا۔ جس کا گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے۔ ٹھٹھہ، مانڈو، لکھنوتی میں بھی علیشان عمارتیں بنی۔اس دور میں بزرگان دین میں سید محمود گیسو داراز قابل ذکر ہے۔ یہ ایک سو پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔گجرات میں علی بن احمد مہائمی کا نام قابل ذکر ہے۔ان کی عربی میں لکھی ہوئی تفسیر ”تبصر الرحمان”مستند تفاسیر میں شامل ہوتی ہے۔ گجرات کی علمی شخصیت شاہ وجیہ الدین گجراتی نے تین سو کے قریب کتابیں اور رسالے لکھے۔ گجرات کے محمد طاہر پٹنی نے اسماء ا لرجال پرکتابیں لکھی۔ جس میں”مجمع بجار الانوار” سب سے مشہور ہے۔ یہ کتاب حدیث کی مستند ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے محمد طاہر پٹنی پوری عرب دنیا میںجانے جاتے ہیں۔جونپور کی علماء میں قاضی شہاب دولت آبادی،ملا محمد جونپوری، برہانپور کے علی متقی اوردہلی کے علماء میں شیخ عبداللہ تلنبی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس دور کے بڑے مورخ ہندو شاہ فرشتہ جس کا پورا نام ملا قاسم ہندوشاہ ہے اور تخلص فرشتہ ہے۔ وہ اصلاً ایرانی ہے اور بچپن ہی میں احمد نگر آ گیا تھا۔اس نے تاریخ فرشتہ ،ابرہیم عادل شاہ ثانی کے حکم پر لکھی۔ ہندوستان کی بہترین تاریخوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس میںمحمود غزنوی سے مغل بادشاہ اکبر کی وفات تک پورے ہندوستان کی صوبائی حکومتوںکی تاریخ بیان گئی ہے۔سلطنت دہلی کے زوال کے بعد ١٤٠٠ء سے ١٦٠٠ء تک کا یہ عرصہ تقریباً دو سو سال پر محیط ہے۔اس کے بعد بابر نے سلطنت مغلیہ قائم کی۔ ہمایوں کو شکست دینے کے بعد شیر شاہ سوری نے پانچ سال تک حکومت کی۔
شیر شاہ سوری ،افغانوں کے ہندوستان کے حکمرانوں میں ایک مسلم بہادر جرنیلوں میں سے ایک بہادر مسلم جرنیل شیر شاہ سوری بھی گزرا ہے۔ بقول اُس کے اُسے بادشاہت اُس وقت ملی جب اُس کی زندگی کی شام ہو رہی تھی۔ گو کہ اسے ہندوستان پر صرف پانچ سال حکومت کرنے کا موقعہ ملا مگر اس پانچ سالہ دور حکومت میں اس نے دہلی پر حکمرانی کے ساتھ ساتھ رفائہ عامہ کے کئے کام بھی کیے۔ اس کے سب سے مشہور رفائہ عامہ کے کاموں میںپشاور سے کلکتہ تک سڑک اعظم( گرینڈ ٹرنک روڈ،جی ٹی روڈ) ہے۔ یہ پاک و ہند میں اپنی مثال آپ ہے۔اتنے قلیل دور حکمرانی میں اتنی بڑی سڑک تعمیرکرنا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اس سڑک کے ہر کوس پر ایک سرائے، ایک کنواں اور ایک پختہ مسجد ہوتی تھی جس میں امام اور موذن تعینات تھا ۔ جن کو شاہی خزانے سے وظیفے ملتے تھے۔ مسافروں کے آرام کے لیے سرائوں کے دو دروازے ہوتے تھے ایک مسلمانوں اور دوسرا ہندوئوں کے لئے مخصوص تھے۔ پینے کے پانی کے لیے سڑک کے کنارے باولیاں( کنویں) تعمیر کیے گئے جس سے مسافر پینے کا پانی حاصل کرتے تھے۔ ان میں کچھ باولیاں ا ب بھی جی ٹی روڈ کے کنارے پر موجود ہیں۔ان باولیوں میں نیچے اُتر کر پانی حاصل کرنے کے لیے سیڑیاں بنائی تھی۔ راقم نے یہ کنوئیں واہ کینٹ میںاور جی ٹی روڈ سے پنجاب کے آخری شہرحضرو مورٹتے
ہوئے ہٹیاں کے مقام پر دیکھی ہیں۔سڑک کے دونوں کناروں پر پھل دار درخت لگائے گئے۔ شیرشاہ سوری کے رفائہ عامہ کے کارناموں میں سے ایک اور کارنامہ ڈاک کا نظام ہے۔ ڈاک کا نظام اس طرح رائج کیا گیا کہ سڑک کے کنارے چوکیاں بنائی گئی تھی۔ تیز رفتار گھوڑے پر سوار ڈاکیا، ڈاک کا تھیلاایک چوکی سے دوسری چوکی تک پہنچاتا تھا اگلی چوکی پر تیار گھڑا گھوڑا اس ڈاک کے تھیلے کو اگلے چوکی تک پہنچاتا تھا۔اس طرح ڈاک آخری منزل تک قلیل وقت میں پہنچ جاتی تھی۔ شیر شاہ سوری کا اقتدار میں آنے کی روداد کچھ اس طرح ہے۔ اس کا نام جو اس کے والدین نے رکھا تھا وہ فریدخان تھا۔شیرشاہ ١٤٨٦ء میں پیدا ہوا اور١٥٤٥ء میں حادثاتی طور پرفوت ہوا۔بہادر سپاہی ہونے کی وجہ سے اس نے مغل بادشاہ ظہرالدین بابر تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد پٹنہ کے حاکم کی فوج میںملازم ہو گیا اور جرنل کے عہدے تک پہنچ گیا۔ پٹنہ کے حاکم کی موت کے بعد اس کا جانشین بنا ۔پھر پٹنہ کے حاکم کی بیوی کا انتقال ہوا تو پٹنہ کا حاکم بن گیا۔مغل بادشاہ بابر شراب کا رسیا تھا۔
حکومت کے تمام انتظامات اس کے وزیر چلاتے تھے جور شوت خور تھے۔ اس کی حکومت کمزور ہو رہی تھی کہ اس کا بیٹا نصیر الدین ہمایوں تخت پر بیٹھا ۔شیر شاہ سوری نے اس سے لڑ کر مغل بادشاہت کا خاتمہ کر کے دہلی کا حکمران بن گیا۔ ہمایوں شکست کے بعد سندھ کے راستے ایران بھاگ گیا۔ شیر شاہ سوری نے پنجاب میں سلطان پور کے مقام پر مغلوں کو فوجی کمک پہنچانے والے پٹھوار کے سلطان سارنگ اور گکھڑوں کے ساتھ جنگ کی ۔ان کو شکست دینے کے بعد روات کے مقام پر فوجی چوکی بنائی۔گکھڑوں، جن پر شہاب الدین غوری کو گائوں دھمیک، سوہاوہ جہلم کے مقام پر عشاء کی نماز ادا کرتے ہوئے شہید کرنے کا الزام ہے۔ملت اسلامیہ کی مختصرتاریخ میں شہاب الدین کو ایک اسمٰعیلی نے فدائی حملہ کر کے شہید کیا تھا کیونکہ شہاب الدین نے اوچھ اور ملتان کی اسٰمٰعیلی حکومت کو ختم کیا تھا۔ ممکنہ طور پر ہمایوں کی ایران سے واپسی اور مغل سلطنت حاصل کرنے کی کوشش میں مغلوں کے ساتھ پرانے تعلوقات اور جنگ جُو علاقے میں رہنے والے گکھڑوں کی سرکوبی اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی غرض اور اس خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے شیر شاہ سوری نے جہلم کے قریب دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان ناقابل تسغیر قلعہ تعمیر کرنے کے لیے اپنے وزیر تعمیرات شاہو سلطانی کو تعینات کیا۔ شاہو سلطانی نے جی ٹی روڈ پر واقع منڈی شہر جی ٹی روڈ جس کو، اب روہتاس کے نام سے مو سوم کیا جاتا ہے نالہ کھان کے کنارے جگہ منتخب کر کے پٹھوار کے گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے قلعہ روہتاس تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر میں بیک وقت تین لاکھ مزدروں نے حصہ لیا۔اس کی تعمیر پر اس وقت اخراجات ایک ارب اکیس کروڑ پچھتر ہزار روپے ہوئے۔
روات قلعہ آٹھ سال کی مدت میں تعمیر ہوا۔قلعے کے ابتدائی حصہ میں شاہی مسجد،شاہی محلات، مان سنگھ محل، رانی محل، لنگر خوانی،پھانسی خانہ اور١٢ دروازے بنائے گئے۔تعمیر شروع کرنے کے وقت اسکارقبہ ١٣٠ ایکڑ زمین رقبہ پر محیط تھا۔ بعد میں شیر شاہ کے حکم سے اس کے رقبے میں توسیع کر دی گئی اور قلعہ کا کل رقبہ ٣٠٠ ایکڑپر محیط کر دیاگیا۔قلعہ میں تین پوشیدہ دروازے بھی بنائے گئے۔ شیشی دروازے کے اوپر بنائے گئے برج میں اندرونی حصہ پر کلمہ شہادت اور آیات کرسی تحریر ہے۔ دوسرے دروازوں کے اندر درود شریف ،اللہ اور رسولۖ کے باری باری نام تحریر ہیںجو آج بھی شیر شاہ سوری کی اسلام پسندی کا نادر نمونہ پیش کر رہی ہے۔قلعے کی وسیع بیرونی دیوار کے اندرون حصہ پر چلنے کے لیے راستہ بنایا گیا ہے۔قلعہ کے اندر ایک بڑی باولی(کنواں) بنائی گئی ہے۔ یہ ٢٧٠ فٹ گہری اور چارمحرابی چوکھٹوں کے نیچے اُترنے کے لیے١٥٠ سیڑھیاں کے دو رویہ بلند دیواریں ہیں۔ نیچے اترنے کے لیے ہر پندرہ سیڑیوں کے بعد ایک وسیع سیڑھی بنائی گئی ہے تاکہ بندہ سانس لے سکے۔کنویں کا محیط ٣٥ گز ہے۔گہرائی ٣٠٠ فٹ ہے۔ باولی میں آج تک پانی موجود ہے مگر استعمال نہیں کیا جاتا۔اس باولی کو دور دور سے لوگ دیکھنے کے لیے سیاح اب بھی آتے ہیں۔جب شیر شاہ سوری کا انتقال ہواتو اس کے بعد اس بیٹے سلیم شاہ،فیروز شاہ عادل شاہ ، ابراھیم سوری اور سکندر سوری تقریباً دس سال حکمران رہے۔
اس کے بعد شیر شاہ سوری کے خدشات کے عین مطابق گکھڑ سردارا دم خان نے ہمایوں کو ہندوستان آنے کی دعوت دی جس پر ہمایوں ایران کی فوج کی مدد سے پہلے پنجاب اور اس کے بعد ہندوستان پر پھر قابض ہو گیا۔ مغلوں کے زوال کے بعد اس قلعہ پر ١٧٦٦ء میں سکھوں نے قبضہ کر لیا۔رنجیت سنگھ اس قلعہ میں کافی عرصہ قیام پذیر رہا۔سکھ شاہی محلات کے اندر سے قیمتی پتھروں کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ہمایوں ہندوستان میں افراتفری کا عالم دیکھ کر پشاور کے راستے ایران کی مدد سے جب پنجاب پر حملہ آور ہو تھا تواسوقت تاتار خان رہتاس قلعہ کا گورنر تھا۔ اس کے قائم مقائم گورنر آدم خان قلعہ روہتاس ہمایوں کے حولے کرنے کے لیے روات تک آگے بڑھ کر قلعہ ہمایوں کے حوالے کر دیا۔ ہمایوں روہتاس کی طرف بڑھا۔ جب ترکی کی پہاڑیوں سے اتر رہا تھا۔ اس نے دور سے زمین کی بلندیوں پر انڈے کی ماند سفید براق قلعہ کھڑا پایا اور کہا کہ یہ کیا ہے۔جواب دیا گیا یہ شیر شاہ سوری کا قلعہ روہتاس ہے۔ حکم دیا اسے فوراً گرا دیا جائے اور زمین کے برابر کر دیا جائے۔ جب ہمایوں روہتاس آیا تو بیرام خان نے عرض کیا بادشاہ سلامت اب یہ سارا علاقہ آپ کے زیر سایہ ہے۔اس کو زمین بوس کرنے میں وقت لگے گا۔آپ نے بڑے کارنامے سرانجام دینے ہیں اور دہلی پہنچنا ہے ۔ لہٰذا آپ کا حکم بجا کر اس کے سوہل دروازے کے تین کنگر گرا دیے جاتے ہیں ہمایوں کو یہ تجویز پسند آئی۔ توپ سے تین کنگرے گرا دیے گئے۔ جن کو بعد میںانگریز سرکار نے دوربارہ مکمل کیا۔ پٹھوار کا یہ علاقہ فوجی جوان پیدا کرنے میں ہمیشہ زرخیز رہا ہے۔ مغلوں، انگریزوں اور اب بھی پاک فوج میں پٹھوار کے بہادر جنگ جُو مشہور ہیں۔ ہندوستان کے قلعے مسلمان حکمرانوں کی شان و شوکت کے مظہر ہیں۔ راقم نے شیرشاہ سوری کا بنایا ہواروہتاس قلعہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ، ١٩٨٧ء میں بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔دہلی میں مغل بادشاہ کے بنائے ہوئے لال قلعے کودیکھنے کا موقعہ ملا۔سرخ پتھر سے تعمیر کیا گیا لال قلعہ اب بھی اپنی شان شوکت کے ساتھ
برقرار ہے۔قلعے کی اونچی دیواروں کے ارد گردکئی فٹ چھوڑی اور کافی گہری پانی کی کھائی جس میں پانی موجود ہوتاتھا۔ نہ گھڑ سواروں کوآگے بڑھنے کی ہمت تھی اور نہ ہی ہاتھوں سے چلائے گئے تیر اتنی اونچی دیواروں تک پہنچ سکتے تھے۔ قلعے کی دیواروں پر بارود کے گولے مار کر قلعے کی دیواروں کو گہرایا جا سکتا تھا۔ اب تو لڑائی میں ٹینک، توپیں، راکٹ لائنچر،میزائل اور نہ جانے کون کون سا جدید اسلح ایجادہوگیا ہے کہ ان قلعوں میں کوئی بھی فوج پناہ نہیں لے سکتی۔بہر حال پاک و ہند میںپھیلے یہ قلعے اپنے دور کی شان وشوکت کے مظہر تھے۔ جس میں شیر شاہ سوری بہادر مسلم جرنیل کا تعمیر کردہ روہتاس کا قلعہ بھی شامل ہے۔ اللہ ہمارے پاکستان کو مستحکم کرے تاکہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کے شر سے محفوظ رہیں۔