کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کی ہزارہ شیعہ کمیونٹی کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ طالبان کی واپسی ان کے ممکنہ خاتمے کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں بعض نے راہِ فرار اختیار کر لی ہے اور کچھ ہتھیار اٹھا کر کمیونٹی کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان جنگجوؤں کا گشت اپنی جگہ مگر ان کی وجہ سے اقلیتوں کے افراد اپنے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں اور ان میں خواتین کے ساتھ نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ بظاہر طالبان کے وعدوں سے ان میں عارضی ٹھہراؤ پیدا ہے لیکن سب مستقبل کی صورت حال سے مایوس ہیں۔
مایوس کن حالات کی شکار نو عمر اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی ہیں۔ ایک انیس سالہ طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ زندگی کی کیفیت کو بیان نہیں کر سکتی کہ اب زندگی نے کیسا پلٹا کھایا ہے کہ صرف مایوسی بچی ہے۔
ہائی اسکول کی انیس سالہ طالبہ نے جنم اس وقت لیا تھا جب سن 2001 میں طالبان کی پہلی حکومت کا زوال ہوا تھا۔ اس نے صرف اپنے اپنے رشتہ داروں سے اس دور کے ظلم و جبر کے بارے میں سن ہی رکھا ہے۔
اس طالبہ کے مطابق طالبان کے گزشتہ دورِ حکومت میں کھلے عام سزائیں دینا، بھوک اور قحط کے حالات کے علاوہ لڑکیوں کی تعلیم ممنوع اور موسیقی سننے پر مکمل پابندی تھی۔ اس کے رشتہ داروں نے لرزہ خیز قتل عام اور جبری مذہبی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہزارہ کمیونٹی کو جبر کا نشانہ بنانے کے واقعات بھی سنائے ہیں۔
افغانستان میں شیعہ ہزارہ کیونٹی کی آبادی بیس فیصد ہے اور کئی برسوں سے طالبان اور ‘اسلامک اسٹیٹ‘ انہیں کافر قرار دیتی چلی آ رہی ہیں۔ سن 2001 میں طالبان کے زوال نے ہزارہ کمیونٹی کے حالات بدلے اور ان کو بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع ملا۔ ان کی کمیونٹی کا ایک فرد تو ملک کے نائب صدر کے منصب پر بھی براجمان ہوا تھا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں یہ کمیونٹی معاشی اور معاشرتی اعتبار سے پھلتی پھولتی رہی۔ گزشتہ کچھ برسوں میں اس کمیونٹی کو سنگین دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا رہا جن میں ایک میٹرنٹی ہسپتال پر حملہ تھا، جس میں سولہ نوزائیدہ بچوں اور بچوں کو جنم دینے والی خواتین کی موت ہوئی تھی۔
اب افغانستان پر قبضہ کرنے والے طالبان نے اعتدال کا راستہ اپنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ان کے ترجمان متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کریں گے۔
اس دوران اسی جذبے کے اظہار میں طالبان کی جانب سے سارے ملک میں عاشورہ محرم کے جلوسوں کے لیے خصوصی نمائندے روانہ کیے گئے تھے۔ پیغمبر اسلام کے نواسے کے قتل کے سوگ میں شیعہ لوگ سوگوار رسومات میں شریک ہوتے ہیں اور انہی رسومات کو کٹر سنی ‘برائی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہزارہ کمیونٹی کے بیشتر افراد کا خیال ہے کہ طالبان صرف بین الاقوامی برادری کی خوشنودی کے لیے ایسے اعتدال پسندانہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ محض پراپیگنڈا ہے کیونکہ ان کی امداد سے ہی یہ افغانستان پر مؤثر حکومتی عمل جاری رکھ سکیں گے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرنے والی کئی خواتین نے طالبان کی یقین دہانیوں کو ڈھکوسلا قرار دیا ہے۔ سابقہ حکومت کے ایک ہزارہ رکن پارلیمان مہدی راسخ کا کہنا ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کو ابدی خطرے کا سامنا ہے۔
ذوالفقار امید پارلیمان کے رکن تھے اور اب وہ ایک مزاحمتی لیڈر کا روپ دھار چکے ہیں۔ امید نے بتایا کہ انہوں نے وسطی افغانستان میں ہزارہ مزاحمتی گروپ تشکیل دے دیا ہے۔
ان کے اس گروپ میں آٹھ سو باقاعدہ جنگجو شامل ہیں اور پانچ ہزار رضاکاروں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ذوالفقار امید نے غیر ملکی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ انہیں مدد فراہم کریں اور طالبان کے رحم و کرم پر مت چھوڑیں۔
ہزارہ مزاحمتی گروپ کے لیڈر ذوالفقار امید کے بقول سب کا کہنا ہے کہ طالبان تبدیل ہو کر جدیدیت کا رنگ لے چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بالکل تبدیل نہیں ہوئے اور ان کے قبضہ کرنے کے بعد ہلاکتوں اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کے ساتھی دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہیں۔ امید کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کی نگرانی میں نئے خوف و دہشت گردی کا ایک نیٹ ورک پروان چڑھ سکتا ہے۔
ہزارہ مزاحمتی لیڈر ذوالفقار امید کا کہنا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں پنجشیر کی تاجک آبادی کے لیڈر احمد مسعود سے ملاقات کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہزارہ اور تاجک قوتیں مشترکہ طور پر طالبان کا مقابلہ کریں گی۔
امید کو اس امر کا بھی احساس ہے کہ اس وقت طالبان چھوڑے گئے جدید امریکی ہتھاروں سے بھی لیس ہو چکے ہیں۔
امید نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت بلیک مارکیٹ سے ہتھیار خرید کر مزاحمتی کارکنوں کو دیے جا رہے ہیں گو یہ بہت جدید نہیں لیکن ان کے کارکنوں کا حوصلہ بلند ہے اور وہ جانوں پر کھیل جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعض طالبان جنگجو بھی ہتھیار فروخت کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔
آسٹریلیا کی لا ٹروبی یونیورسٹی سے منسلک نعمت اللہ ابراہیمی کا خیال ہے کہ ہزارہ مزاحمتی گروپ کی تشکیل ایک تباہی کا رستہ بھی ہو سکتا ہے۔
ابراہیمی کو یہ خوف لاحق ہے کہ اس صورت میں طالبان ہزارہ کمیونٹی کا معاشی مقاطع کر سکتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کی ہلاکتوں کا امکان موجود ہے۔
تعلیم یافتہ ہزارہ افراد راہِ فرار اختیار کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ طالبان کی واپسی کے بعد چھ ہزار سے زائد ہزارہ افراد پاکستانی شہر کوئٹہ میں پناہ لے چکے ہیں۔