گجرات (پریس ریلیز) مکة المکرمہ میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیخلاف خطرناک سازشوں کے انسداد کیلئے حضرت پیر محمد افضل قادری نے مسلم حکمرانوں کے نام کھلا خط جاری کردیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ قرآن مجید سورہ آل عمران آیت نمبر 97 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب پتھر مقام ابراہیم کو روشن نشانی قرار دیا ہے۔ جبکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 158 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے منسوب پہاڑوں صفا ومروہ کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔
سورہ حج آیت نمبر 32میں ارشاد فرمایا: ”اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو وہ دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے”۔ اسی طرح ”صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب المساجد التی فی طریق المدینہ” میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہوں ،آرام کرنے کے مقامات اور گزرگاہوں کی تلاش کرتے وہاں نماز پڑھتے ،زیارت کرتے اور صحابہ وتابعین کو آثار نبوی کا جغرافیہ بڑے اہتمام سے بتاتے۔
اسی طرح کثیر احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کبار ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک، کپڑوں، برتنوں، نعلین پاک، اور دیگر نشانیوں سے برکت حاصل کرتے۔ لہذا صحابہ کرام سے لے کر چودہ سو سال تک مسلمانوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار (یادگاروں) کی بے حد حفاظت کی اور شرق وغرب کے مسلمان ہمیشہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ واہل بیت کی مقدس ومتبرک یادگاروں کی زیارت سے برکت وسکون حاصل کرتے رہے ہیں اور یہ آثار اپنے اندر اسلام کی عظیم تاریخ بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔
لیکن 1925ء سے سعودی حکومت اوراُن کے انتہاء پسند وہابی علماء نے حجاز مقدس پر قبضہ کرنے کے بعد بے شمارآثار نبوی، تاریخی مسجدوں، صحابہ اور اہل بیت کے تاریخی مقامات، تاریخی باغات، تاریخی کنووں، اور دیگر یادگاروں کو بڑی بے دردی سے مسمار کردیا۔ مثلا: غزوہ خندق کے مقام پر سات تاریخی مساجد (سبع مساجد) مسجد فتح، مسجد سلمان فارسی، مسجد عمر، مسجد ابوبکر، مسجد سعد بن معاذ، مسجد علی، اور مسجد فاطمہ میں سے تین مساجد مسجد ابوبکر، مسجد علی، اور مسجد سعد بن معاذ کو مکمل طور پر مسمار کردیا اورمسجد فاطمہ کو مکمل بند کر دیا گیا۔
مسلمانون کو تسلی دینے کیلئے سائیڈ میں ایک بڑی مسجدبنا دی ہے جبکہ شرعا جائز نہیں ہے کہ مختلف مقامات سے سات مسجدوں کو شہید کرکے کسی ایک مسجد کی جگہ پر ایک بڑی مسجد بنا کر اس کی تلافی کی جائے۔ اسی طرح مسجد حرام سے متصل پہاڑ پر مسجد ہلال تھی، اس جگہ ”شق قمر” کا معجزہ واقع ہوا تھا، اس مسجد کو مسمار کرکے شاہی محل بنا دیا گیا۔ اسی طرح بے شمار تاریخی مکانات، باغات، کنووں، اور مقدس یادگاروں کو مسمار کر دیا گیا۔ جبکہ جنت البقیع، جنت المعلیٰ، مقام غزوۂ احد اور مقام غزوہ بدر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ و اہلبیت کی قبروں کو مسمار کردیا گیا۔ اسی طرح 1978ء میں والد رسول حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک کی جگہ کھدائی کرائی گئی۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ والد رسول حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم مبارک بلکہ آپ کا کفن مبارک بھی محفوظ اور جسم خوشبودار وتروتازہ تھا۔جسم مبارک کو جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح رمضان المبارک 1998ء میں والدہ رسول سیدہ کائنات حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر مبارک جو کہ ابوا کے مقام پر ایک پہاڑی کے اوپر واقع تھی اسے بلڈوزر چلا کر نہایت گستاخی کے ساتھ مسمار کردیا گیا۔
اب یہ انتہا پسند نجدی علماء اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانی، اللہ تعالیٰ کے پیارے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کو صنم اکبر (بڑا بت) قرار دے کر قبر مبارک اور گنبد خضریٰ کو مسجد نبوی سے نکالنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جیساکہ سعودی حکومت کی حالیہ گول مول تردید میں بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ تعمیراتی کمیٹی نے قبرنبوی کو جنت البقیع میں منتقل کرنے کی تجویز دی تھی۔ نیز یہ بھی اندیشہ ہے کہ حالیہ توسیعی منصوبے میں گنبدخضریٰ کو مکمل طور پر چھپا دیا جائے گا۔
نیز کئی ذرائع سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ انتہاء پسند نجدی علماء مسجد حرام کی حالیہ توسیع میں مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مسمار کر دیں گے جیسا کہ اس سے پہلے توسیعات میں بے شمار آ ثارِ نبوی وآثار آل واصحاب کو مسمار کو دیاگیا ہے۔ لہذا آپ کی ملی ودینی ذمہ داری ہے کہ آپ آثار اسلام کے تحفظ کیلئے کردار ادا کریں نیز جن آثار اور تاریخی مقامات کو مسمار کر دیا گیا ہے اُن کی بحالی کیلئے کردار ادا فرمائیں۔