تحریر : ایم سرور صدیقی ایک شعر اب اکثر یاد آ جاتا ہے یہ شعر نہیں اکثر و بیشترپ اکستانیوں کی سچی کہانی ہے کسی کے ایک آنسوپر ہزاروں دل تڑپتے ہیں کسی کا عمر بھر رونا یونہی بے کار جاتا ہے
پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر روز ایک نیا مسئلہ، ہر سال نیا بحران۔۔ ۔۔ قدم قدم پر نیا امتحان ۔۔۔آئے روز درپیش سنگین معاملات، سلگ سلگ کر جینا۔۔ سسک سسک کر مرنا ۔۔۔ ہر وقت خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب عام پاکستانی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کیا واقعی زندگی اسی کو کہتے ہیں؟ وہ بھی حکمران تھے جن کا کہنا تھا” دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے قیامت کے روز اللہ کے حضور عمر جواب دہ ہو گا” اور ایک آج کے حکمران اور سیاستدان ہیں جن کی سیاست کا محور گلیاں ہو جان سنجھیاں وچ مرزا یار پھرے ہے کہا جا سکتا ہے وہ ماضی کے قصے، کہانیاں ہیں بے شک وہ ماضی ہے لیکن شاندار روایات کا حامل کسی کے ایک آنسوپر ہزاروں دل تڑپتے ہیں کسی کا عمر بھر کا رونا یونہی بے کار جاتا ہے۔
بچپن میں یہ شعر پڑھا جو آج بھی بہت متاثر کرتا ہے انسانی رویے، سیاست ،طبقاتی کش مکش یا پھر عاشقی کے تناظرمیں اسے بہترین مثال کہا جا سکتا ہے ۔۔۔یہ اس لئے بھی یاد آیا کہ ان دنوں عمران خان ‘شیخ رشید اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری ان دنوں میاں نواز شریف حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے میدان میں خم ٹھوک کر اترے ہوئے ہیں جماعت اسلامی کی تو پہلے ہی تحریک ِ انصاف سے دوستی تھی لیکن مسلم لیگ Qکے چوہدری برادان نے حالات سے بروقت خوب فائدہ اٹھاکر میاں نواز شریف کے خلاف کئی سال کا غبار نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن لگتاہے موجودہ حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں البتہ کئی سیاستدانوں کی باسی کڑی میں ابال آسکتا ہے ماضی میں کم و بیش40-30 سال قبل احتجاجی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے تھے جب بھی اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کرتی چھوٹی بڑی درجنوں جماعتیں مرحوم و مغفور نوابزادہ نصراللہ خان کے گرد جمع ہو جاتیں جن سیاسی جماعتوں کو تانگے کی سواریاں بھی میسر نہیں تھیں ان کی چال ڈھال اور بیان بازی دیدنی ہوتی۔پریس کانفرنس یا احتجاج کی کوریج دیکھ کر کئی چھوٹی جماعتوںکے سربراہ اخبارات میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی بڑی بڑی تصویریں دیکھ کر آہیں بھرتے اور اپنا نام تک نہ چھپنے پر دل ہی دل میں کسی کے ایک آنسوپر ہزاروں دل تڑپتے ہیں کسی کا عمر بھر کا رونا یونہی بے کار جاتا ہے کا شعر دہراتے رہتے۔
Tahir ul Qadri
بلاشبہ شہرت ہر کسی کا نصیب نہیں بنتی کامرانی کیلئے انسانی رویے۔۔۔سیاسی حالات، معاشرتی ماحول، اخلاقی اقدار اور معاملات بھی شدید اثرات مرتب کرتے ہیںلیکن سیاست تو ہے ہی۔ قدم قدم پر نیا امتحان۔۔اپوزیشن کیلئے ہر وقت گرفتاری کا خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب۔۔۔پاکستانی سیاست کی نصف صدی پر غورکیا جائے تو یہ احساس گہرا ہوتا چلا جائے گا کہ اس ملک میں آج تک جمہوری انداز سے کوئی سیاستدان بناہے نہ اقتدار میں آیا سب کے سرپرست ِ اعلیٰ فوجی ڈکٹیٹر تھے اس حقیقت کو کوئی جھٹلانا بھی چاہے تو نہیں جھٹلا سکتا یہی وجہ ہے کہ کسی حکمران نے اپنے دل میں عوام کا درد محسوس نہیں کیا”شارٹ کٹ” کے فارمولے پر پیرا شوٹ کے ذریعے نازل ہونے والے عوام کا دکھ کیا جانیں۔۔انہیں کیا معلوم مہنگائی کس عفریت کا نام ہے۔۔بھوک سے بلکتے بچوںکو دیکھکر اپنا گردہ بیچنے والوںپر کیا بیتتی ہے؟۔۔۔ تھانے کچہری اور سرکاری اداروں میں عوام کوکتنی تذلیل برداشت کرنا پڑتی ہے۔۔۔ اب وہ حکمران کہاں سے لائیں جس کا کہنا تھا” دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مرجائے قیامت کے روز اللہ کے حضور عمر جواب دہ ہو گا” عمران خان ‘شیخ رشید چوہدری پرویزا لہی، سراج الحق اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی پروگرام اپنی جگہ پر حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے یہ کام بھی ضروری ہیں لیکن عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ناگزیر ہے پاکستان کی سرزمین صحیح معانوں میں وہ ماحول مانگتی ہے جو قومی امنگوں کا ترجمان ہو آج عوام میں تحریک پاکستان کا جذبہ بیدارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس پاک وطن میں ایسا معاشرہ پروان چڑھ سکے جس میں لڑائی نہ ہو، شرانگیزی نہ ہو، دہشت گردی نہ ہو، امن ہو، سکون ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے ہم وطنوں کو عزت ،سکون اور خوشحالی سے مالا مال کردے ایسا ماحول بن جائے کہ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اکثر لوگ شاکی ہیں کہ پاکستان کے سرکاری دفتروں میں بیٹھے فرعون نما افسر عوام کو گھاس ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے ، اور تو اور چھوٹے اہلکاروں سے گزٹیڈ افسران تک ایک سے ایک بڑا نکھٹو، ہڈ حرام اور کام چور موجود ہے شاید اسی لئے ہمارا ملک ترقی نہیں کررہا، تھانہ ،کچہری میں انصاف کے لئے بلکتے بلبلاتے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں عوام اپنے بنیادی حقوق کیلئے ذلیل و خوار ہورہے ہیں لیکن حکمرانوںپر جوں تک نہیں رینگتی اشرافیہ عوام کو خجل خوار کرنا شاید اپنا حق سمجھتی ہے یہ لوگ نہ جانے کس مستی میں گم ہیں پاکستان میں شیخ چلی کی طرح ہر حکومت نے زبانی جمع خرچ کے بہت سے منصوبے تیار کئے ہیں فائلوں میں غربت کے خاتمہ کے حیرت انگیر اعدادو شمار کابھی اندراج بھی کیا جاتاہے اور مزے کی بات یہ ہے ہمارے حکمران ان پر اتراتے پھرتے ہیں لیکن عملاً آج تک کوئی ٹھوس حکمت ِ عملی یا بہتر منصوبہ بندی کی ہی نہیں گئی کوئی حکمران یہ نہیں سوچتا کہ اگر یہ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا درست ہوتا تو پاکستان میں غربت کی شرح کم ہونے کی جائے زیادہ کیوں ہوتی جارہی ہے ۔۔۔پاکستان کے حکمران ا س بات کو یادرکھیں کہ وہ پوپ جان پال،صدام حسین،شہنشاہ ِ ایران یا کرنل قذافی سے زیادہ طاقتور ہیں نہ صاحب ِ اختیار۔۔۔ اگر انہوںنے عام شہری کیلئے اب بھی کچھ نہ کیا ان کی دولت سے محبت ختم نہ ہوئی تو ایک ایک لقمے تو ترستے غربیوں کی محرومیاں بددعا بن جائیں گی۔۔اپنے آپ کو زمین کا خدا سمجھنے والو !ایسا ہو گیاتو پھر توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گاکروڑوں اربوں روپے بھی چند منٹ کی سانسیں نہیں عطا کرنے پر قادر نہیں لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات پر زندہ رہنے کیلئے انقلابی کام کرنا پڑتے ہیں باتیں نہیں۔
اصل میں نئی نسلوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کچھ پلاننگ کرنا ہو گی،ب ہتری کیلئے کوشش کرتے رہنا ہی زندگی کی علامت ہے جب تک ۔۔ہر روز ایک نیا مسئلہ،ہر سال نیا بحران۔۔ ۔۔ قدم قدم پر نیا امتحان۔۔۔آئے روز درپیش سنگین معاملات، سلگ سلگ کر جینا۔۔ سسک سسک کر مرنا ۔۔۔ ہر وقت خوف۔۔۔ ہر لمحہ اضطراب کا سلسلہ ختم ہو جائے گا صحیح معانوں میں اس روزنئے پاکستان کی صبح کا آغاز ہو گا۔ آئیے کوشش کریں۔