مِثل گھٹائوں کی پائی جب جن کے کالے بالوں نے عمر گذاری پیاسے وہ کر اُن کے چاہنے والوں نے وہ بھی خاصر ہم بھی خاصر ساری دنیا خاصر ہے گھیر کے رکھا ہے ہم کو بھی اُن کے بیش سوالوں نے ورنہ ہم بھی اُڑ سکتے تھے پروازوں کی حد سے دور اپنے بس میں کر رکھا ہے ناداری کے جالوں نے کتنے بھاری ہوں گے یارو بوجھ اُٹھا نہ پائے تھے موتی جیسے آنسو کو رُکنے نہ دیا اُن گالوں نے موم سے دل بھی ہوگئے پتھر خون کے پیاسے بن بیٹھے انسانوں کو کیا کر ڈالا سوکھے چند نوالوں نے چرخ سے واپس آبیٹھے ہیں مایوسی کے عالم میں چھوڑ دیا ہے آہیں بھرنا اپنے دل کے نالوں نے تلواریں تو تلواریں ہیں روک سکے نہ زخموں کو تلواروں سے ہونہ سکا وہ کام کیا ہے ڈھالوں نے اور تباہی کیا ہونا تھا اور قیامت کیا ہوگی بیچ دیا ہے بازاروں میں اپنا نور اُجالوں نے بہتر تھے تاریخ کے پنّے جس میں عکس ہمارا تھا ہم کو خیر سجا رکھا ہے ایسے چند حوالوں نے دل کا شیشہ اغیاروں سے مات نثار نہ کھایا تھا دل کو اپنے چُور کیا ہے دل میں بسنے والوں نے
Ahmed Nisar
شاعر : احمد نثار ، شہر پونہ، مہاراشٹر، انڈیا ۔۔ Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in