ہم کسی بات پر متفق نہیں ہو سکے، مشرف کے لیے واضح طور پر دو گروپ بن چکے ہیں، اب مشرف کے حق میں بھی موثر اور اونچی آواز میں بات ہونے لگی ہے، کچھ لوگ اور دو ایک میڈیا گروپ تو اسطرح اسکے خلاف ہے جیسے مشرف نے انکی حکومت ختم کی ہو، نواز شریف کی خاموشی معنی خیز ہے، وہ تو اقتدار میں آنے سے مشرف کے لیے خاموش تھے، خاموشیاں، سرگوشیاں بنتی ہیں اور پھر سرگوشیاں بنتی ہیں۔
لیکن کچھ لوگ تو باقاعدہ شرپسندی پراترے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے چودھری شجاعت اور الطاف حسین کی باتیں متوازن اور مناسب ہیں جو گزر گیا سو گزر گیا رات گئیں بات گئیں اب آگے چلو مگر ہمیں چیزوں کو متنازعہ بنانے کا بڑا شوق ہے، سچی بات یہ ہے کہ ملٹری والوں کو سبق سکھایا جارہا ہے کہ وہ پھر نہ آجائے۔ میاں صاحب نے ماضی میں چیف ملٹری کو سبق سیکھانے کی کوشش کی تھی مگر خود سبق سیکھنا پڑا۔ اب اسی ملٹری چیف کو ریٹائر ہونے کے بعد سبق سکھانے کا ارادہ ہے۔ یہ وار دات کسی اور طرف بھی اشارہ کرتی ہے جنرل کیانی سے بھی تحفظات تھے، وہ سیاستدانوں سے زیادہ جمہوریت کو مستحکم کرگئے۔ اب جنرل راحیل شریف ہیں انکا نام بھی شریف فیملی کے ساتھ دوستی کی نشانی ہے۔ ان سے کسی غیر آئینی شرارت کی توقع بے معنی ہے۔
اگر کسی جنرل نے کچھ کرنا ہے تو ایسے ان حالات میں کیسے روکا جاسکتا ہے، روکنے کا جو طریقہ ہے وہ ہماری طرز حکومت اور طرز جمہوریت میں نہیں ہے، لوگوں کی خدمت کرو، نا انصافیاں اور زیادتیاں ختم کرو اعوام کو سہولت دو انصاف دو اور انکے حقوق دو جیسے عرف عام میں ریلیف کہتے ہیں، خاندانی مورثی جمہوریت کے بجائے اس عالمی مثال پر عمل کرو،عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام کے فائدے کے خاطر حکومت بہترین جمہوریت ہے۔ پر یہاں توجمہوریت کو بہترین انتقام کہا جاتا ہے اور خود انعام لیا جاتا ہے۔ اور انتقام بیچاری عوام سے لیا جاتا ہے جو قیام سے لے کر آج تک ذلت رسوائی اور اذیت میں مبتلا ہیں۔
General Zia
اگر صحیح معنوں میں جمہوریت ہو تو کسی طالع آزما کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ کوئی مداخلت کرے لوگ خود اسکے خلاف کھڑے ہوجائیں گے اور ایسے بیرکوں میں بھیج کر گھر آئیں گے، پاکستان میں فوجی اور سیاسی حکمرانوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ افسوس کہ سیاسی اور حکومتی معاملات کے علاوہ فوجی ادوار میں لوگوں کو نسبتا معاشرتی اور معاشی طور پر آسودگی ملی لیکن دونوں قسم کی حکمرانی اور من مانی میں کوئی فرق نہ تھا۔
مارشل لا جنرل ضیا نے بھی لگایا تھا، اس میں بھٹو صاحب کی بلند وبالا شخصیت نے بھی کچھ بلنڈر کیے تھے بلنڈر سرنڈر سے کم خطرناک نہیں۔ جنرل ضیا بھٹو کا اور جنرل مشرف نواز شریف کا مقرر کردہ تھا، جرنیلوں کو ڈرانے کی بجائے اپنے آپکو ڈرانے کی ضروت ہے شیخ رشید نے ٹھیک کہا کہ وہ مشرف دور میں وزیر تھے انہیں اتنا تو مشرف کے حق میں ہونا چاہیے اور پھر ابھی چودھری شجاعت اور الطاف حسین نے بھی مشرف کی بھرپور حمایت کردی اور الطاف حسین نے اس حوالے سے نکات بھی پیش کردیے، انکی باتیں سیاسی حکمرانوں کے خلاف نہیں ہیں ایک سابق سپہ سالار کو غدار کہنا کہاں کی عقل مندی ہیں جو سب سے بڑے غدار ہیں وہ حکمرانیاں جنگل میں منگل کررہے ہیں عوام کو عزاب اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، شیخ رشید ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ کب تک دروازے بند رکھو گے بلا تو دیوار پھلانگ کر بھی آجائے گا، سیاسی بلیوں کو احتیاط کرنا چاہیے۔ احتیاط کا مطلب ہے کہ ملک کو صحیح طرح چلا ورنہ حکومت ہی صیحح طرح سے چلا، مزید ورنہ یہ کہ پھر چل چلا تو لگا رہے گا۔
Iftikhar Chaudhry
اور پھر مولانا طاہر اشرفی نے بھی ٹھیک کہا کہ پہلے چیف جسٹس افتخار چودھری پر بھی مقدمہ چلا بات چل نکلی ہے تو پھر بہت دور تک جائے گی۔ اس معاملے کو حکمت عملی سے طے کرنے کی اشد ضرورت ہے، خدا رہ مشرف کے معاملے میں تدبر کی بجائے تکبر سے کام لیا جائے۔