تحریر: محمد صدیق پرہار وفاقی حکومت نے مالی سال دوہزار پندرہ سولہ کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔بجٹ کی تفصیلات آپ اخبارات میں پڑھ چکے ہیں تاہم اس کی مختصر تفصیل لکھ دیتے ہیں تاکہ بات کو سمجھنے اورسمجھانے میں آسانی رہے۔٤٣١٣ ارب روپے کے وفاقی بجٹ پیش کیاگیا۔ جس میں خسارہ کاتخمینہ سولہ سوپچیس ارب روپے لگایاگیا ہے۔مختلف مدات میں ایک سواڑتیس ارب روپے کی سبسڈیزدی جائیں گی۔ٹیکس وصولیوں کاہدف ایک ١٣٠٤ ارب روپے رکھاگیا ہے۔صوبوںکو١٨٥٠ ارب روپے ملیں گے۔مشروبات، کاسمیٹکس ،موبائل فون،سگریٹ مہنگے کردیے گئے۔تعمیراتی میٹریل زرعی وصنعتی میشنری سستی کردی گئی۔کسٹمزڈیوٹی کم کرکے ایک سوبیس ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ملازمین کوبنیادی تنخواہ میں ساڑھے سات فیصد جبکہ میڈیکل الائونس میں پچیس فیصد اضافہ ملے گا۔حلال گوشت، مچھلی کی سپلائی، بجلی کی ترسیل کے منصوبوں ہائوسنگ سکیموںکے لیے بیچی گئی جائیدادپرٹیکسوںمیں چھوٹ دی گئی ہے۔
گاڑیوں کی ٹرانسفر، ٹوکن ٹیکس میں کمی،سولرپینل کی درآمد پر سیلز ٹیکس ،کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ برقراررکھی گئی ہے۔ایف بی آر سے ایس آراوزاوررعایتیں دینے کااختیارواپس لے لیاگیا۔٥٣٢ ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ دفاعی بجٹ میں گیارہ فیصداضافہ کرکے ٧٨٠ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔سیکیورٹی اورعارضی نقل مکانی کرنے والوںپرسوارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ایراکے منصوبہ جات کے لیے سات ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں تین ارب روپے کی بیرونی امدادبھی شامل ہے۔بجلی وپانی کے منصوبوں پرتین کھرب سترہ ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔لوڈشیڈنگ دوہزارسترہ میں ختم کرنے کاہدف رکھاگیا ہے۔ہائیڈل منصوبوںکے لیے ایک کھرب،جینکوز کے لیے ٨٠ ارب سے زائدتجویزکیے گئے ہیں۔
دیامر،بھاشا، داسوڈیم کھچی کینال کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔یزمان میںگرڈاسٹیشن قائم کیاجائے گا۔مزدورکی کم ازکم تنخواہ تیرہ ہزارروپے کردی گئی ہے۔پی ایچ ڈی کے ملازمین کودس ماہانہ الائونس دس ہزارروپے ملے گا۔تنخواہ، پنشن اورالائونس میںاضافے پر٤٦ ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔فوڈ سیکیورٹی پرڈیڑھ ارب ،ٹیکسٹائل پرساڑھے سولہ کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔پرائم منسٹریوتھ پروگرام اورمیلنئیم گولزکے حصول ،معاشرے کی ترقی کے پروگراموں کے لیے بیس، بیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزیراعظم ہیلتھ انشورنس سکیم شروع کرنے کافیصلہ کیاگیاہے جس کے لیے ٩ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جسٹس وانسانی حقوق ڈویژن کے لیے ایک ارب پچاس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انٹرنیشنل کالزسستی ہونے سے بیرون ملک پاکستانیوںکوفائدہ ہوگا۔
ایک سواٹھائیس تحصیلوںکوفائبرآپٹک سے منسلک کرنے کے لیے ٨.٢ ارب کی سرمایہ کاری کرنے کافیصلہ کیاگیا ہے۔یوتھ بزنس لون سکیم کے قرضے میں مارک اپ میں دوفیصدکمی گئی ہے۔میرانی ڈیم کے بارشوں سے متاثرین کے لیے ساڑھے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔پرائیویٹ سیکرٹری کی تنخواہ میں سوفیصداضافہ کیاگیاہے۔شاہرائوں کی تعمیرپرایک کھرب ٥٩ ارب روپے ، ٣٨٧کلومیٹرطویل ملتان تاسکھرسیکشن پر٦١ ارب روپے خرچ ہوں گے۔سولرٹیوب ویل کے لیے قرضے پرسودختم کردیاگیا ہے۔تین لاکھ چھوٹے کسانوںکوایک ایک لاکھ قرضہ ملے گا۔آزادکشمیراورگلگت بلتستان کے لیے ٢٣ ارب ٢٣کروڑ سترلاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔خود کش حملوںمیں شہیدہونے والوںکی بیوائوںکادس لاکھ روپے تک کاقرضہ حکومت اداکرے گی۔ترقیاتی بجٹ ایک ہزارپانچ سوچودہ ارب روپے رکھاگیا ہے۔وفاق کوسات سوصوبوںکواٹھ سوتیرہ ارب روپے ملیں گے۔ اس میں دوسواکتیس ارب ٧٥کروڑ کی غیرملکی امدادبھی شامل ہے۔بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے لیے ایک سودوارب روپے مختص کرکے امدادی پروگرام کادائرہ پچاس لاکھ خاندانوںتک بڑھانے کافیصلہ کیا گیا ہے۔
Pakistan Bait ul Maal
پاکستان بیت المال کا فنڈزچارارب روپے کردیاگیا ہے۔خیبرپختونخوامیں نئی صنعتوں پرپانچ سال کے لیے ٹیکس میںچھوٹ دینے کااعلان کیاگیا ہے۔جوہری توانائی منصوبوں کے لیے تیس ارب ٧٢ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پندرہ ارب چھیالیس کروڑ کی غیرملکی امدادملے گی۔ جدیدنیوکلیئرپاورپلانٹس کے تحفظ کانیاپرگرام شروع کیا جائے گا۔چشمہ پلانٹ، تونسہ مائیننگ پراجیکٹ اورمینارملتان کی اپ گریڈیشن کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں چودہ فیصداضافہ کرکے ساڑھے ٧١ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سائنس اینڈٹیکنالوجی کے منصوبوں کے لیے ایک ارب چھ کروڑ ،دفاع ودفاعی پیداوارکی ترقیاتی سکیموں کے لیے تین ارب ٣٥ کروڑ خرچ کیے جائیں گے۔اقتصادی راہداری کے لیے ٥٨ ارب ١٠ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہین۔ این ایچ اے کوپانچ ارب سے زائد ملیںگے۔ ریلوے کی ترقی کے لیے اکتالیس ارب ،بندرگاہوں اورجہازرانی کے لیے بارہ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ریلویز کی جاری سکیموں کے لیے ستائیس ارب ساٹھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر پرچارارب سترکروڑ روپے خرچ ہوں گے۔آئی ٹی وٹیلی کام کے لیے بانوے کروڑ ،پٹرولیم وقدرتی وسائل کے لیے ٣٤ کروڑ٨٩ لاکھ مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ کے دوسرے دن پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے کہاکہ بجٹ غریبوں کے لیے ہے۔کھانے پینے کی چیزوںپرکوئی ٹیکس نہیںلگایا۔گلگت بلتستان میں گندم پرسبسڈی ختم نہیں کی گئی۔اس کے لیے ساڑھے چھ ارب رکھے ہیں۔موبائل فون کی قیمتیں بڑھائی نہیں کم کی گئی ہیں۔مہنگے ترین موبائل پرریگولری ڈیوٹی برھائی ہے۔وفاقی سیکرٹری کی تنخواہوں کودوگنانہیں کیاگیا بجلی کے شعبے مین سبسڈی پرکمی نہیں کی گئی۔ٹیکس کابوجھ صاحب حیثیت لوگوںپرڈالاگیا ہے۔کوئی بھی بات ہو، سانحہ ہو، واقعہ ہو اس پرردعمل دوطرح کاہوتاہے۔ ایک عملی اورایک زبانی۔زبانی ردعمل کوبیان کہتے ہیںاورعملی ردعمل اس کے مطابق عملی کام کرنا ہوتا ہے۔ہرسال وفاقی بجٹ پربھی دونوںطرح کاردعمل سامنے آتا ہے۔پہلے ہم ا س کے زبانی ردعمل کی طرف آتے ہیں۔
پہلا ردعمل تو ہر سال کی طرح وزیرخزانہ کی طرف سے آیا۔انہوں نے تمام خدشات کومستردکردیا کہ یہ نہیں کیاوہ نہیں کیا۔بجٹ کی آڑ میں کسی کوقیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نے عوام دوست اورمتوازن بجٹ پیش کیاہے۔وفاقی وزیراطلاعات ونشریات پرویزرشیدنے کہا کہ عمران تبصرے سے قبل بجٹ سمجھ لیںاشیائے ضروریہ کی قیمتوںمیں اضافہ نہیںہوا۔تنخواہ اورپنشن وصول کرنے والوں کی آمدن میں اضافہ اوراخراجات کم ہوئے ہیں۔پانچ لاکھ تک سالانہ آمدنی والوںکاٹیکس تین فیصد کم کیا۔سابق صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بجٹ عوام دشمن ہے غریبوںکوصرف دعائوںپرچھوڑ دیاگیاہے۔حکومت کاتیسرابجٹ بھی اکائونٹنٹ کابیان ہے۔امیروںکونوازا گیا۔ٹیکس اصلاحات یامعیشت کی دستاویزکاکوئی ویژن نہیں۔سرکاری ملازمین بجٹ سے مایوس ہوئے۔حکومت ظالمانہ فیصلے واپس لے۔گلگت بلتستان کے عوام کی مراعات ختم نہیں کرنے دیں گے۔
نوازشریف نے چندروزقبل گلگت سکردو روڈ کی تعمیراورگلگت بلتستان کی ترقی کے لیے ٤٧ارب روپے خرچ کرنے کااعلان کیامگربجٹ میں رقم نہیں رکھی۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔ہم نے تالیاںبجائیں لیکن بارباربجٹ آیا۔بہترہے کہ فنانس بل میں لکھ دیں کہ سال میں چارمرتبہ بجٹ آئے گا۔اگرنیاٹیکس لگاناہے تواسے اسمبلی میں لایاجائے۔وزیرخزانہ سے اپیل ہے کہ تنخواہوںمیں پچیس فیصداضافہ کیاجائے۔ان کاکہناتھا کہ ایک طرف نجکاری کرنے جارہے ہیںدوسری طرف ایسے ادارے بنارہے ہیںجوبوجھ ہیں۔نجکاری کرنی ہے تومیٹروکی کریں۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسدعمرنے قومی اسمبلی میںبجٹ تجاویزپیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوںمیں پندرہ فیصداضافے اورجی ایس ٹی کی شرح میں کمی کامطالبہ کیاہے۔چیئرمین ایگری کلچرسٹیڈنگ کمیٹی پنجاب ایم پی اے چوہدری محمدافضل گل ایڈووکیٹ حکومت نے معتدل بجٹ پیش کرکے عوام دوست ہونے کاثبوت دیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں تعمیراتی زراعت کے لیے بہترین مراعات کااعلان کیا۔غلام فریدکوریجہ نے کہاکہ بجٹ میں صنعت کاروںکوفائدہ غریبوںکونقصان پہنچایاگیا۔
Government
تحریک سواد اعظم پاکستان کے مرکزی چیئرمین پیر سیّد زوارحسین شاہ بخاری نے کہا ہے کہ حکومت نے عوام دشمن بجٹ پیش کیا ہے۔ جی ایس ٹی کے اضافہ سے مہنگائی کا سیلاب آئے گا۔عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین اور لیبریونین کا کہنا ہے کہ حکومت نے مایوس کیا۔ پنشن تنخواہ میں معمولی اضافہ مستردکرتے ہیں۔بجٹ کے اثرات سٹریٹ کرائم میں اضافہ کریں گے۔حکومت میٹروکی بجائے ہیلتھ منصوبوں کااعلان کرے۔ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ کسانوں اورزمینداروںنے بھی بجٹ کو کاشتکار دشمن قرار دے دیا ہے کسان تنظیموں کاکہنا ہے کہ حکومت کے پاس کسانوں، کاشتکاروں اورزمینداروں کے لیے کچھ نہیںہے۔وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ترقیات ومنصوبہ بندی سیّد محمدثقلین شاہ بخاری نے کہا کہ حکومت نے عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے۔یہ توتھا حالیہ بجٹ پرزبانی ردعمل۔ اب عملی ردعمل کی طرف آتے ہیں۔وزیرخزانہ نے کہا کہ بجٹ کی آڑمیں کسی کوقیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ان کایہ بیان یہی ردعمل روکنے کی طرف اشارہ ہے۔ حالانکہ قیمتیں بڑھانے والے نہ توپہلے کسی سے ا س کی اجازت لیتے ہیں اورنہ ہی وہ بعدمیں کسی سے لیںگے۔
ہرسال بجٹ کااعلان ہوتے ہی قیمتوںمیں اضافہ ہوجاتاہے۔ ابھی تواس پربحث ہونا ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد اس میں ضروری ردوبدل کیا جاتاہے۔ پھر اس کی منظوری دی جاتی ہے۔ پھر یہ نافذہوتاہے۔قیمتیں بڑھانے والے بجٹ سنتے ہی اسے اپنے اوپرلاگوکردیتے ہیں۔ملتان سے خبر ہے کہ چھوٹا،بڑاگوشت، چینی، چکن، دالوں سمیت ٢٢ اشیاء مہنگی ہوگئی ہیں۔ایک قومی اخبارمیں اسلام آبادسے خبرہے کہ بجٹ پیش ہوتے ہی مہنگائی کاطوفان آگیا۔اشیاء ضروریہ کی قیمتوںمیں دس سے پندرہ فیصداضافہ ہوگیا ہے۔عام مارکیٹ میں چھوٹے بڑے گوشت کی قیمتوںمیں پچاس روپے،مرغی کی قیمت میں ٣٥ روپے کلواضافہ ہوگیاہے۔سبزی فروشوں نے بھی سبزی کی قیمتوںمیں ہوشربااضافہ کردیاہے۔تنخواہوںمیںمعمولی اضافے کے خلاف کلرک شہرشہراحتجاج کررہے ہیں۔
نوازشریف کی حکومت نے آئندہ مالی سال کابجٹ پیش کرکے اپنی حکومت کی آئندہ سال کی معاشی ترجیحات کااعلان کردیا ہے۔صرف مسلم لیگ ن کے سیاستدان ہی اس بجٹ کی تعریف کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی نے اس بجٹ کی تعریف نہیں کی ہے۔وفاقی حکومت نے نئے سال قومی میزانیہ میں دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ا س کی ضرورت بھی تھی۔ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔اس کے متاثرین کی آبادکاری اورانفراسٹرکچر کی تعمیرکامرحلہ بھی ابھی باقی ہے۔اس کے لیے اخراجا ت کی ضرورت ہے۔تعمیراتی میٹریل ، صنعتی وزرعی مشینری سستی ہونے سے ملک میں صنعت وزراعت کی ترقی میں مددملے گی۔تاہم یہ فائدہ بڑے صنعت کاراورزمیندارلے جائیں گے۔مشروبات مہنگے ہونے سے غریب پاکستانی گرمی بجھانے سے محروم ہوجائیں گے۔مشروبات صرف امیرہی نہیں غریب بھی استعمال کرتے ہیں۔
Water and Power
پانی وبجلی کے منصوبوں کے لیے فنڈز تو رکھے گئے ہیں تاہم کالا باغ ڈیم اورلیہ تونسہ پل کے لیے بجٹ میں رقم مختص نہ کرکے حکومت نے سرائیکی وسیب کونظراندازکرنے کی کوشش کی ہے۔حلال گوشت اوربجلی کی ترسیل کے منصوبوںپرٹیکسوںمیں چھوٹ دینے سے ان کی ترقی میں مددملے گی سولرٹیوب ویل کے لیے قرضے پرسودختم ہونے سے کسان سولرٹیوب ویل لگوانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔اس سے بجلی کی بچت میںمددملے گی۔سولرٹیوب ویل پرصرف سودختم کردیناہی کافی نہیں ہے۔اس کی قیمتوںمیں بھی کمی کی جانی چاہیے۔خیبرپختونخوامیں نئی صنعتوںپرپانچ سال کے لیے ٹیکسوںمیں چھوٹ دی گئی ہے۔اس طرح کی سہولت دیگرصوبوںکوبھی دی جائے۔ٹیکسٹائل کے لیے مالیاتی پیکج کااعلان اسے مستحکم کرنے میںمدددے گا۔کسی نے اس بجٹ کوعوام دوست کہا ہے توکسی نے اسے عوام دشمن کانام دیا ہے۔
یہ میزانیہ نہ توعوام دوست ہے اورنہ ہی عوام دشمن۔عوام کی بنیادی ضروریات کی اشیاء سستی کردی جاتیں ۔عوام کومعمولی سابھی ریلیف دے دیاجاتا توسیاستدانوںکواس طرح کے بیانات دینے کاموقع نہ ملتا۔ وفاقی حکومت اس سالانہ میزانیہ میں صنعت اورزراعت کوریلیف دے کران کے فروغ کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ کیونکہ ملک کی معیشت کا انحصار زراعت اور صنعت پر ہے۔ زراعت اورصنعت کی ترقی واستحکام کے لیے خام مال کی سستے داموں اوربروقت فراہمی کے ساتھ ساتھ زرعی مداخل، کھاد، بیج، ڈیزل،زرعی ادویات کاسستاہونابھی ضروری ہے۔ ان کی ترقی کے لیے کسان اورصنعت کارکے اخراجات میں کمی لانا بھی ضروری ہے۔ گذشتہ سال کے بجٹ کوہم نے معیشت دوست بجٹ کانام دیا تھا۔ اس کی تصدیق مختلف مالیاتی اداروں کی پاکستان کی معیشت بارے رپورٹوں سے ہوچکی ہے۔ اس سال کا سالانہ میزانیہ زراعت وصنعت دوست میزانیہ ہے۔ہماری یہ بات آئندہ مالی سال میں ثابت ہوجائے گی۔