خیرپور ناتھن شاہ : زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں اور کاشتکاروں پر مشتمل ہے جن کا ہر سطح پر استحصال ہو رہا ہے۔ زراعت کو ترقی دیے بغیر اور اس ملک کے کسان کی حالت زار میں بھتری لائے بغیر ہم خود کو زراعت میں خود کفیل نہیں بنا سکتے۔
زراعت کو ملکی معیشیت میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔اگر زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر غور کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جارہے ہیں۔کھاد نہ صرف مہنگی ہورہی ہے بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہوجاتی ہے۔کسانوں کا کاشتکاری کو خیرباد کرتے ہوئے زرعی زمینیں فروخت کرکہ شہروں میں منتقل ہونے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
ہمارے کسان اور کاشتکاروں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی حاصل نہیں ہے۔انہیں جراثیم کش دوائیوں کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اور مصنوعی کھاد کے مناسب استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یے ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملکی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔وہ کاشتکاری کے اب بہی ان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔
زراعت کے شعبے سے وابستہ آبادی کا 60 فیصد حصہ کسانوں اور کاشتکاروں پر مشتمل ہے جن کا ہر سطح پر استحصال ہو رہا ہے۔اور یے غربت سے بری طرح متاثر ہیں۔زراعت کو ترقی دیے بغیر اور اس ملک کے کسان کی حالت زار میں بھتری لائے بغیر ہم خود کو زراعت میں خود کفیل نہیں بنا سکتے۔اب ضرورت اس عمل کی ہے کہ حکومت کسانوں سے مشاورت کے بعد ہر فصل کے پیداواری اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے قیمتوں کا تعین کرے اور کسانوں میں زمینیں تقسیم کی جائیں اور یے تقسیم منصفانہ اور طئے شدہ معیار کے مطابق شفاف انداز میں ہو۔کسانوں کو بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں۔
چھوٹے کاشتکاروں کو مالی امداد دی جائے اور ساتھ ہی ساتھ زرعی آلات پر ٹیکس ختم کی جائے۔اس کے علاوہ غیر معیاری بیجوں اور زرعی دوائیوں کی سپلائے کو کنٹرول کیا جائے۔اگر ایسا ہوجائے تو نہ صرف پاکستان میں کسانوں اور کاشتکاروں کی حالت زاز بھتر ہوسکتی ہے بلکہ ملکی معیشت کو بہی اچھا کھاسا بڑھاوہ ملے گا۔