مجھے اگر کوئی پوچھے فراز شاعر اچھا تھا یا انسان میری چوائیس ان کی انسان دوستی ہے وہ ساری زندگی فر کی آزادی کے لئے لڑا انسانیت کی بھلائی کے لئے اس نے جد و جہد شاعری تو ذریئہ اظہار تھی جیسے کالم نویس کالم لکھتا ہے لیکن لکھتا تو وہ دکھڑے ہے۔ میرا پہلا تعارف احمد فراز سے جدہ میں ہوا ۔ملاقات تو پہلی تھی لیکن یاد گار ہو گئی فراز وہاں کے مقیم اردو دانوں کی جانب سے منعقدہ مشاعرے میں تشریف لائے تھے۔قصر التاج میں اس شاندار مشاعرے میں ان کے علاوہ شبنم رومانی امداد نظامی شہزاد احمد شہزاد اعتبار ساجد حسن رضوی ناصر زیدی پروفیسر عنائت علی خان ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کے علاوہ کچھ اور شاعر بھی تھے۔فراز نے مشاعرہ پڑھا اس یاد گار مشاعرے کی یادیں اب بھی ذہن میں ہیں ۔جدہ کے لوگوں کو یہ موقع ملتا رہا حلقہ ء یاران وطن ،عالمی اردو مرکز نے وہاں بہت خوبصورت تقریبات کا انعقاد کیا رائٹرز فورم نے بھی اچھی تقریبات کا انعقاد کیا ۔اس مشاعرے کی بڑی دل چسپ بات یہ تھی کہ ناظم مشاعرہ احمد سعود قاسمی نے جناب فراز اور ان نامور شعراء کے ہوتے ہوئے کسی ایک شاعر کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان سے نہیں آ سکے جو دال دلیہ ہے وہ حاظر اس سے حال قہقہوں سے گونج اٹھا اللہ بخشے احمد سعود کو ہو اس واقعے پر شرمندہ ہونے کی بجائے ڈٹ گئے۔
ان دنوں اردو نیوز کا شہرہ تھا نیٹ نام کی کوئی چیز نہ تھی پرنٹ میڈیا چھایا ہوا تھا۔اطہر ہاشمی اس اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔آج کل روزنامہ جسارت کے ایڈیٹر ہیں۔اس اخبار میں ایڈیٹرز کی ڈاک میں چھپنے والے خطوط پاکستانی اور اردو پڑھنے والوں کے لئے بڑی دل چسپی کا حامل تھی جناب ہاشمی قارئیں کی نوک جھونک کرایا کرتے تھے یہ نوے کی دہائی تھی۔میں احمد فراز کا ذکر اس لئے لئے بیٹھا ہوں کہ اس مرد درویش کو میں نے کچھ قریب سے دیکھا ہے کچھ وہاں اور کچھ یہاں پاکستان میں ۔فراز نے مشاعرہ پڑھا ۔دوران مشاعرہ حال میں میں سے ایک سادہ دل پاکستان عنائت جارا کی کہیں سے آواز آئی فراز صاحب کب پنجابی دے شعر ہو جاوون فراز نے کہا وہ میں نہیں پڑھتا۔پھر آواز آئی چلو مجھ سے سن لیں چاہے سب سے آخر میں مجھے بلا لیں اس پر ہال قہقہون سے گونج اٹھا آپ کو علم ہو گا کہ مشاعرے میں جو سب سے آخر میں پڑھتا ہے وہ صدر مشاعرہ اور سب سے سینئر شاعر ہوتا ہے۔
قصر التاج کے اس مشاعرے میں ایک اور بڑی بات ہوئی جب شعراء حضرات مشاعرہ پڑھ کے بسوں میں بیٹھ کر جانے لگے تو قاری شکیل مرحوم نے فراز صاحب سے کہا سرفراز صاحب آپ نے تو لوٹ لیا ۔احمد فراز حیران ہوئے اور میری طرف دیکھنے لگے میں نے کہا یہ کہہ رہے ہیں سر فراز آپ نے مشاعرہ لوٹ لیا ہے تھوڑے سادہ سے ہیں یہاں کی مسلم لیگ کے صدر ہیں ۔فراز نے کہا ان کی بے وقوفی کے لئے یہی کہہ دینا کافی ہے کہ ان کا تعلق مسلم لیگ سے ہے۔اسی چھوٹے سے سفر میں فراز نے کہا میاں صاحب کی عادت ہے جب کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے تو دوران اجلاس کہتے ہیں لسی کا وقفہ نہ ہو جائے۔قصر التاج کے مشاعرے کے بعد فراز پاکستان چلے گئے میں کسی کام کے لئے ایئر پورٹ گیا تو دس پندہ شعراء مل گئے جن کو اگلے روز میں لے آیا اور حلقہ ء فکر و فن کے زیر اہتمام مشاعرہ کیا یہ فردوس ہوٹل میں ہونے والا یاد گار مشاعرہ ہے جس کا ذکر بعد میں کروں گا۔
فراز کو حلقہ یاران وطن کے زیر اہتمام دو بار جدہ بلایا ۔دونوں بار وہ ہالیڈے ان مکہ روڈ پر ٹھہرے پی آئی اے کا اس ہوٹل سے اشتراک تھا یہیں عمران خان کے اعزاز میں یاد گار تقریب بھی ہوئی ۔اللہ نے موقع دیا تو اس قسم کی تقریبات کے احوال بتائوں گا یہ تیس سال پہلے کی یادیں ہیں۔فراز بھی اس ہوٹل میں ٹھہرے میرے چھوٹے بھائی سجاد چودھری بھی اس ہوٹل کے استقبالیے میں کام کرتے تھے ۔فراز صاحب کے ساتھ اس دورے میں محسن احسان خاطر غزنوی بھی تھے ۔سال یہی نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں سے تھا میں نے اردو میگزین کے ایڈیٹر رو ء ف طاہر جو مقامی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں ان کے ساتھ مل کر احمد فراز کا ایک انٹرویو بھی کیا میں اردو نیوز کے اس میگزین کا جدہ سے رپورٹر بھی تھا کیا کیا کام کئے اس زندگی میں ۔احمد فراز کی عادت تھی کہ وہ چٹکلے بازی کیا کرتے جس محفل میں ہوتے قہقے اس محفل کا طواف کرتے۔ان کے ساتھ جدہ کے علاوہ مدینہ منورہ میں بھی گیا۔ہاں یہ بات بتانا چاہوں گا کہ ہم میں سے سب سے زیادہ دوستی سردار شیر بہادر کی تھی۔جنہیں آپ لوگ جانتے ہوں گے ایبٹ آباد کی ضلع کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں اور میرے اچھے دوستوںمیں سے ہیں ۔شیر بہادر مقامی کمپنی میں کام کرتے تھے۔فراز کی میزبانی کرنے کا موقع مجھے بھی ملا طے ہوا کہ احمدفراز اور ان شعراء کو عمرہ میں کرائوں گا۔احمد فراز نے زندگی میں تین عمرے کئے جن میں سے دو میں نے کرائے۔میرے پاس سفید کیپرس تھی۔میں ہوٹل پہنچا تو دیکھا ان تینوں نے احرام کھول دئے ہیں ۔میں نے کہا جناب آپ کو تو دم پڑ گیا ہے اور اس کے بدلے آپ کو دم دینا ہو گا بولے وہ کیا ہوتا ہے میں نے کہا حضور برہ دینا ہو گا بے ساختگی سے جناب محسن احسان کی گردن پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا میرا بکرا تو میرے ساتھ ہے۔
جدہ میں عزیزیہ محلے میں زہرہ ریسٹورینٹ ہے یہ ہمارے دوستوں کا ہے گڈو منڈی بہائوالدین کے چودھری اعظم کی ملکیت اس ہوٹل کو آپ جدہ کی سیاسی سماجی سرگرمیوں کا گڑھ سمجھئے۔یہاں ملک محی الدین اس تواتر سے بیٹھے نظر آتے تھے میں سمجھتا تھا کہ یہی اس ہوٹل کے مالک ہیں وہ ہمارے ساتھ حلقہ ء یاران وطن میں بھی رہے جو جدہ کے سات متحرک پاکستانیوں کی وہ تنظیم تھی جس نے بڑا نام کمایا ۔اس تنظیم کے سات لوگوں میں ملک سرفراز ملک محی الدین چودھری شہباز حسین سردار شیر بہادر مسعود احمد پوری نور احمد جرال اور انجینئر افتخار چودھری تھے۔اس تنظیم نے سیاسی طور پر بٹے ہوئے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم دیا یعنی سات سیاسی لوگوں کا ایک غیر سیاسی پلیٹ فارم تھا جس کے نام پر ہم نے جدہ کے لوگوں کو قومی سطح کے پروگرام دئے ۔زہرہ ہوٹل میں ناشتہ ء یاران وطن بھی کمال کا ہوا کرتا تھا۔چائے تو ہم روز پیتے ہیں لیکن جو چائے زہرہ کی تھی اس کا جواب نہیں تھا ۔اسی ہوٹل میں جہاں اب فیملی فلیٹوں کا داخلہ ہے اور اسکول سائیڈ سے دروازہ ہے یہاں ایک کمرہ تھا جس میں ہم پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کو ناشتہ کراتے تھے فراز کو مکس چائے اور زہرہ کے نان بڑے پسند تھے ہم نے ان کی قیام جدہ کے دوران وہیں تواضع کی۔
فراز یاروں کے یار تھے قونصل جنرل عارف کمال نے انہیں دعوت دی کے گھر تشریف لائیں لیکن انہوں نے پیپلز پارٹی کے ایک کارکن کے بیٹے کی تقریب میں جانا پسند کیا جو ہمارے دوستوں میں تھا ۔خاطر غزنوی کی مشہور غزل وہ ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ میں نے خاطر کو کہہ دیا تھا مزے کرو لیکن اگر جج نے حلف دینے کو کہا تو مجھے نہ کہنا۔جمعے والے دن ہم نے عمرہ کیا عصر سے سے پہلے ہم حرم سے نکل رہے تھے میں نے توجہ دلائی برجستہ شعر کہا
حرم میں نیند آئی سو گئے ہم اسی کے تھے اسی کے ہو گئے ہم
شبلی کا نام پہلی بار میں نے پہلی بار سنا سکوں والے فون سے وہ اپنی بیگم سے پاکستان فون کر رہے تھے ۔اور میں اس بات کا گواہ ہوں وہ بیگم سے کہہ رہے تھے مجھے تو میرے رب نے بغیر مانگے بہت کچھ دے دیا ہے تم بتائو تمہارے لئے کیا مانگوں ۔
سعودی جرمن ہسپتال کے مشاعرے میں جب پڑھا تو مجھے کہا سامنے بیٹھنا سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں اس طویل غزل کے اشعار جب بھول جاتے تو میں لقمہ دیتا میں الریاض سے آیا تھا نوکری کے پھڈے چل رہے تھے
شعر عطاء کیا افتخار کے لئے ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں اس پے تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھمدینہ منورہ مین جہانگیر مغل کے گھر ناشتہ کر رہے تھے میں نے بریڈ پر جام لگایا انہوں نے گھور کے دیکھا تو شعر نذر کیا تو نے جو پھیر لی نظر تومیں نے بھی جام رکھ دیا عش عش کر اٹھے ۔
کمال کے باوقار شخص تھے میں نے اپنی زندگی میں بڑی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں ۔اللہ سب کو خوش رکھے لیکن احمد فراز شعراء اور ادباء میں واقعی ان کا سر فراز دیکھا ۔ان کی ایک تقریب قونصل جنرل رضواب صدیقی کے گھر ہوئی جس کی نظامت میں نے کی تھی میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ شعراء ان سے حسد بھی کرتے تھے لیکن ان کے نصیبوں میں جو عزت شہرت لکھ دی گئی تھی وہ کسی اور کو نہیں ملی۔دوران طواف لوگ انہیں پہچان کر رک جاتے تھے اور ان کے بارے میں جو مذہب بے زاری کا تاثر پھیلا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ وہ مذہبی نہیں تھے لیکن مذہب سے پیار تو تھا مجھے بتایا کہ ایک بار کسی شاعر نے حضور پاک کی شان میں نشے کی حالت میں گستاخی کی تو میں نے اس کی پٹائی کی۔رمضان کی ان ساعتوں میں ان کے لئے دعائے مغفرت
یہاں جدہ اور پاکستان میں ان سے جڑی یادوں کو کسی اگلی قسط میں لکھوں گا