گزشتہ روز حلقہ فکروفن کے زیر اہتمام صاحب طرزادیب اور عظیم شاعر احمد ندیم قاسمی کی تیرویں برسی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک تنقیدی نششت کاشانہء ادب پر منعقد ہوئی،جس کی صدارت حلقہ ء فکروفن کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے کی،مہمان خصوصی معروف بزنس مین قلمکار اور حلقہء فکرو فن کے چیئرمین شیخ سعید احمد تھے،وقار نسیم وامق نے نظامت کے فرائض سر انجام دیئے، ڈاکٹر محمود احمدباجوہ نے تلاوت قرآن پاک،ترجمہ اور تفسیر سے محفل کا آغاز کیا، عابد شمحون چاند نے نعت رسول مقبولﷺ پیش کی۔
وقار نسیم وامق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ احمد ندیم قاسمی مخزن فکرو فن اور منبع علم و کمال تھے،انہوں نے اپنے ادبی جریدے فنون کے ذریعے جو خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ اردو ادب کا حصہ ہیں،اور ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، چوہدری سجاد جٹ نے احمد ندیم قاسمی کی زندگی کے اوراق سے پردہ اٹھایا اور ان کی شاعری کا سون سے فنون تک کے سفر پر سیر حاصل بحث کی،حلقہ ء فکروفن کے سنیر رکن سرور خان انقلابی نے کہا کہ آپ اردو ادب کے ایک عہد پر اثر انداز ہوئے۔آپ نے بطور افسانہ نگار اور شاعر اپنی انفرادی حیثیت اس وقت قائم رکھی جب برصغیر میں ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔
معروف شاعرہ اور فکروفن کے ایڈوائزر ڈاکٹر محمود احمدباجوہ نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل اردو ادب پر جن شخصیات کی چھاپ تھی ان میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی حیثیت نمایاں تھی،اس لحاظ سے آپ کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،فیض احمد فیض اور منٹو کے ہم عصر تھے،جناب ارشد شیخ نے کہا کہ قاسمی صاحب ہماری ادبی تہذیب کے ایک عہد کی نمائندگی کرتے ہیں،ان کا فیضان جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔
محمد امین تاجر نے کہا کہ انکی وفات سے اردو ادب میں کبھی نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہوا ہے،انہوں نے اپنی زندگی اردو زبان و ادب کے لیے وقف کر رکھی تھی،انکی گرانقدر خدمات ادبی دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکے گی،عابد شمعون چاند نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی نے اردو ادب کی دونوں اصناف نظم و نثر میں بہت متحرک کردار ادا کیا،ان کی ساری زندگی اسی فن کی ترویج میں گزری وہ بطور انسان،شاعر اور ادیب قابل تقلید شخصیت تھے،ڈاکٹر محمود احمد باجوہ نے احمد ندیم قاسمی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ احترام آدمیت کا درس دیا،اور ساری زندگی انسانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔
مہمان خصوصی شیخ سعید احمد نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی ایک فلک پیما شاعر و ادیب تھے،بیسویں صدی کے وسط میں جو نسل اردوشاعری اور نثر نگاری کے حوالے سے ابھری ان میں احمد ندیم قاسمی منفردحیثیت رکھتے تھے،اپنے ادبی مقام کے علاوہ جو چیز انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی نے جو کچھ انہیں دیا وہ انہوں نے بعد میں آنے والوں میں بانٹ دیا،فنون کی شکل میں نئی نسل کی سرپرستی،نرم گفتاری،بے لوث محبت،اور دوسروں کے کام آنا ان کی یادگار ہے۔
Tribute to Ahmed Nasim Qasmi
صدر مجلس ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے کہا کہ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت مختلف جہتوں پر مشتمل تھی،وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،ہمیشہ سچائی کے علمبردار رہے،انہوں نے فکری سطح پر نہ صرف کئی نسلوں کو متاثر کیا بلکہ ان کی رہنمائی کا فریضہ بھی سر انجام دیا،وہ جتنے بڑے ادیب تھے اس سے کہیں بڑے انسان تھے،ایسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں،ان کی وفات کے بعد رسالہ فنون کا بند ہونا دوسرا بڑا المیہ ہے،احمد ندیم قاسمی کا نام اردو ادب میں ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گا،
احمد ندیم قاسمی نے کہاتھا کہ عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
حلقہ فکروفن کے شعراء چوہدری سجاد جٹ ،وقار نسیم وامق، عابد شمحون چاند ، ساجد اصغر مرزا او ر ہمایوں اختر نے احمد ندیم قاسمی کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا،روحی کنجاہی کے الفاظ میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے گئے۔
شاعر بڑا،عظیم افسانہ نگار تھا احمد ندیم نابغہ ء روزگار تھا اردو ادب کا دور سنہری ہے اس کے نام ہاتھوں میں اس کے ایک قلم زرنگار تھا ہر لمحے پر گرفت رہی اس کی عمر بھر گویا وہ شخص صاحبِ لیل و نہار تھا اس قد کے لوگ روز جنم پاتے ہیں کہاں وہ حاصل زمانہ و صد روزگار تھا کتنا کشادہ ذہن تھا کتنا فراخِ دل انسان دوست تھا وہ محبت شعار تھا
آخر میں ڈاکٹر محمود احمد باجوہ کی دعا سے محفل کا اختتام ہوا۔