احمد رشدی پاکستان فلم نگر کا ایک اہم نام

Pakistan

Pakistan

پاکستان فلم انڈسٹری میں احمد رشدی کا بڑا نام ہے ان کے ذکر کے بغیر پاکستان فلم نگرمیں فلمی گائیگی کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے گی احمدرشدی 24اپریل 1938ء کو حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔انہوںنے اپنی تعلیم حیدر آباد دکن ہی سے حاصل کی۔بعدازاں ان کا پورا خاندان 1954ء میں کراچی منتقل ہو گیا تھا۔احمد رشدی نے کراچی سے بطور گلو کار اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔ ریڈیو پر بچوں کے پروگرامز میں ان کی شرکت نے ان کو بہت زیادہ مقبول بنا دیا ۔ساٹھ کی دہائی میں ہر دوسری یا تیسری فلم میں ان کی آواز نمایاں ہو تی تھی یو ں تو احمد رشدی ہر قسم کے گیت گانے میں ماہر تھے۔

لیکن وہ شوخ و چنچل،پیروڈی، کامیڈی اور چھیڑچھاڑ والوں لاثانی تھے یوں تو پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور ہیرو پہ ان کے گائے ہوئے گیت فلمائے گئے لیکن ان کی آواز شہنشاہ رومانس چاکلیٹی ہیرو وخید مراد پہ خوب جچتی تھی احمد رشدی اور وحیدمراد کی جوڑی بھی خوب مشہور ہوئی تھی وحید مراد نے اپنی آخری فلم ” ہیرو”جو ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی تھی اس فلم کے لئے بھی احمد رشدی نے ایک اہم گیت ریکارڈ کروایا حالانکہ ان دنوں احمد رشدی بیمارتھے اور ان کے ڈاکٹرنے انہیں گانے سے منع کیا ہوا تھا لیکن وحید مراد کی خواہش پہ انہوں نے گانا ریکارڈ کروایا اس کے بول کچھ یوں تھے
بن کے مصرع غزل کا چلی آئو نا ورنہ شاعر کا دل ٹوٹ جائیگا تم تو روٹھ ہی گئی یونہی جانے وفا تیرا دیوانہ دنیا سے روٹھ جائے گا۔

Film Industry

Film Industry

اب اس گیت کی بھی ایک الگ داستان ہے جو پاکستان فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی جس شاعر نے یہ گیت لکھا لکھنے کے بعد انتقال فرماگئے احمد رشدی نے یہ گیت گایا وہ بھی راہی ملک عدم ہوئے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گیت وحید مراد پہ فلمایا گیا وہ بھی انتقال کر گئے احمد رشدی نے اردو پنجابی اور انگلش میں بھی گیت ریکارڈ کرائے اردوگانے ان کے بہت مقبول ہوئے وحید مراد کے لئے انہوں نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ گیت گائے جو کہ ایک منفرد ریکارڈ و اعزاز ہے مالا بیگم کے ساتھ ان کے سو سے زائد گانے ہیں بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا پتا ہوگا کہ پاکستان کے قومی ترانہ گانے والے دس گلوکاروں میں ایک نام احمد رشدی کا بھی ہے۔

انہوں نے بچوں کے پروگرام میں ایک گانا “بند روڈ سے کمیاڑی چلی رے گھوڑا گاڑی ” گا کر مقبولیت حاصل کی۔ انہوںنے 1955ء میں فلموں کیلئے گیت گانا شروع کئے اور فلم “انوکھی” کے گانے سے شہرت حاصل کی۔ فلم “راز” میں زبیدہ بیگم کے ساتھ گایا ہو ا گیت “چھلک رہی ہیں مستیاں ” بہت مقبول ہوا۔ انہیں پہلا ایوارڈ فلم “سپیرن” کیلئے “چاند سا مکھڑا گورا بدن” گانے پر ملا۔ 1962ء میں فلم مہتاب کے گانے “گول گپے والا آیا گول گپے لایا” پر انہیں دوسرا نگار ایوارڈ ملا جبکہ فلم ارمان کے مقبول گانے” اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم” پر تیسرا نگار ایوارڈ ملا۔1967ء میں فلم احسان میں مالا کے ساتھ رشدی کا گایا ہو اگیت “اے میری زندگی اے میرے ہمسفر ” بہت مقبول ہوا۔وحید مراد اور شمیم آرا کی فلم دوراہا میں احمد رشدی کی آواز میں گائے ہوئے تین گیت “بھولی ہوئی ہوں داستان ” ،تمہیں کیسے بتا دوں تم میری منزل ہو، ہر اسی موڑ پر اسی جگہ بیٹھ کر” بہت مقبول ہوئے۔

گلو کار احمد رشدی نے اپنے دور کے نامور موسیقاروں نثار بزمی ، ایم اشرف ، اے حمید ، کریم شہاب الدین ، ماسٹر عنائت حسین ، کمال احمد لال ، محمد اقبال ، روبن گوش ،خورشید احمد ، جے اے چشتی اور دیگر کی موسیقی میں ان گنت گیت گائے ۔وہ جنوبی ایشیا کے بہترین پاپ سنگر تھے۔گلوکاری کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور انہوں نے ایک درجن فلموں میں کام کیا احمد رشدی 1980ء میں کراچی منتقل ہو گئے۔پاکستان فلم انڈسٹری کی فلمی گائیکی میں ان کے انمٹ نقوش چھوڑنے والے گیت ہیں ان کی زندگی کے آخری ایام بہت کسمپرسی میں گزارے11اپریل 1983ء کو انہیں دوسرا دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 44برس تھی۔

Dr. B.A Khurram

Dr. B.A Khurram

تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم