واقعہ احمد پور شرقیہ، سانحہ یا طمانچہ

Oil Tanker Tragedy

Oil Tanker Tragedy

تحریر : محمد سلیم طوفانی
یہ کل کائنات جب سے وجود میں آئی اور خاص طور پر جب سے بنی نوع انسان نے یہاں قدم رکھا حادثات ، سانحات اور واقعات یہاں بسنے والوں کی زندگی ، انکے رہن سہن ،طور اطوار ،تہذیب و ثقافت اور اخلاق و اعمال پر اثر انداز ہوتے رہے۔آخری اطلاعات تک احمد پور شرقیہ کا یہ حادثہ 215افراد کی جان لے چکا تھا۔ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے ، لیکن شاید ابھی تک کسی دہشتگردانہ کارروائی میںبھی اتنی تعداد میں اموات واقع نہیں ہوئیں جتنی آئل ٹینکر لے گیا۔اوگرا اور پنجاب حکومت تحقیقات میں مصروف ہیں اور عوامل جاننے کی کوشش کر رہے ہیں اور شیل آئل کمپنی کو ذمہ دار قرار دیا جا چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مذ کورہ کمپنی نے حفاظتی انتظامات میں غفلت برتی جسکی وجہ سے ایسا سانحہ پیش آیا(مختصراً)۔لیکن کیا حادثہ صرف ناقص حفاظتی بندوبست کی وجہ سے پیش آیا یا ناقص آئل ٹینکر کی وجہ سے پیش آیا ؟ کیا حادثے کی ذمہ دار صرف شیل کمپنی ہے؟ کیا صرف اوگرا اور پنجا ب حکومت کی تحقیقات پر یقین یا جن پہلوؤں پر تحقیقات ہو رہی ہیں اسی پر اکتفا کرنا چاہیے یا کچھ اپنی عقل و دانش اور بصیرت کو بھی تھپکی مار کر جگانا چاہیے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ المناک سانحہ ہمیں جگانا چاہ رہا ہو لیکن ہم شیل پر ذمہ داری ڈال کر پھر سے سونے لگے ہیں۔کچھ سیاستدان اور ہمارے قومی لیڈر حکومتِ وقت کو اسکا ذمہ دار کہتے ہوئے جہاں ایک طرف اپنی جہالت کا ثبوت دے رہے ہیں وہیں دوسری طرف اپنی بہت ساری ذمہ داریوں کو بھی چھپا رہے ہیں۔دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں پر دوڑتی ہزاروں گاڑیوں کے ساتھ حادثات پیش آتے ہیں ، درجنوں آئل ٹینکرز بھی الٹتے ہیں ،ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ حادثات ہی رہتے ہیں سانحے نہیں بنتے۔مذکورہ واقعہ بھی ٹینکر کے الٹنے تک ایک حادثہ ہی تھا ،ڈرائیور کی موقع پر ہی موت واقع ہو جا تی تو بھی حادثہ ہی رہتا۔نہ کسی اخبار کی شہ سرخی بنتی اور نہ کسی نیوز چینل کی ہیڈلائن۔سوال یہ ہے کہ کس چیز نے اس حادثے کو سانحے میں بدلا ؟کیوں ایک آئل ٹینکر کے الٹنے سے بستی اجڑی ؟کیوں وزیرِ اعظم نے لندن کا دورہ مختصر کیا؟کیوں وزیرِ اعلیٰ نے ہیلی کاپٹر دیا؟کیوں بہاولپور سے لیکر لاہور تک کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی لگی؟کیوں فوج امدادی کارروائیوں کے لئے پہنچی؟کیوں۔۔۔۔ ایک آئل ٹینکر ہی تو الٹا تھا ، ۔۔

حادثہ سانحہ کیوں اور کیسے بنا؟انتہائی معذرت کے ساتھ مگر حقیقت یہی ہے کہ اس حادثے کا ذمہ دار ہمارا قومی رویہ یعنی لالچ بنا۔چوری ،حرص ،زیادہ سے زیادہ مالِ مفت سمیٹنے کی کوشش،ایسی وجوہات ہیں جو کسی رپورٹ میں نہیں آئیں گی حالانکہ سانحے کی اصل اور حقیقی وجوہات یہی ہیں۔مالِ مفت دیکھ کر دِل ایسا بے رحم ہوا کہ پھر گھر کے چائے والے برتنوں سے لیکر پانی والے کولر اور صالن کے دیگچوں سے لیکر شاپروں تک ہر چیز میں تیل بھر ا جانے لگا۔پاس سے گزرنے والی سڑک پر بھی گاڑیاں رک گئیں ،رکشے سے لیکر موٹر سائیکل والے تک سب رک گئے تا کہ مال سمیٹا جا سکے۔بہت سارے لوگ اور نام نہاد دانشوروں اور سیاستدانوں کے مطابق غربت اور افلاس اسکا سبب بنا۔حلانکہ حقیقت میں ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔پٹرول نہ تو پکتاہے، نہ پہنا جا سکتا ہے ، نہ اوڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی سر ڈھانپنے کے کام آتا ہے۔یقینن آئل بھرنے والے ، موٹر سائیکل ، گاڑی، ٹریکٹر ، انجن،ٹیوب ویل، جنریٹر یا پھر ایسی ہی کسی مشینری کے مالک ہونگے اور ایسی ایجادات کے مالکان ایسے غریب نہیں ہو سکتے کہ جنہیں اسکے بنا بھوک سے موت نظر آرہی ہو۔قریبی شاہراہ سے گزرنے والی تمام گاڑیاں یقینن فیول بھروانے کے بعد ہی منزل کو روانہ ہوئی ہونگی لیکن لیٹر ڈیڑھ لیٹر کی لالچ نے انہیں بھی روک لیا۔جو پہلی دفعہ بوتلیں بھر کر لیکر گیا ،وہ دوسرا پھیرا لگانے آگیا اور ساتھ اپنے گھر کے باقی مردوں اور بچوں کو بھی لے آیا جنکے ہاتھوں میں انکی عمر کے مطابق برتن موجود تھے۔ڈرائیور کے لاکھ منع کرنے کے با وجود کوئی بھی اسکی بات سننے کو تیار نہ تھا اور ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ تیل کی دولت سمیٹنے کی جلدی تھی۔پولیس کو بھی اطلاع نہیں دی گئی کیونکہ پولیس انہیں اس کام سے روک دیتی۔یہ صرف اور صرف لالچ اور حرص تھی جو آج درجنوں خاندانوں کو لے ڈوبی۔کئی گھروں میں اب کوئی مرد بچا ہی نہیں ۔یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ملکوں کے لوگوں کو اداس کر دیا۔ اس اندوہناک سانحے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔

مگر افسوس ہماری اخلاقیات پر بھی ہے،ہماری نہ ختم ہونیوالی لالچ پر بھی ۔ہماری قومی عادات و اطوار ، ہماری تربیت ، ہماری سوچ اور ہماری تہذیب پر بھی ہے۔جو ہمیں موت کے منہ میں لے گئی۔اصل میں ہم من حیث القوم ہی کرپٹ ہیں،ہم لالچی ہیں ۔ہم لالچ پر اترتے ہیں تو دہشتگردوں کا اپنے ہسپتالوں میں علاج شروع کروا دیتے ہیں،بھتہ وصولی میں لگ جاتے ہیں ،ٹین پرسنٹ کمیشن طلب کرنا شروع کر دیتے ہیں،عوام کو سول نافرمانی کی کال دیتے ہیںاور کبھی پولیس کی وردیاں تبدیل کروا دیتے ہیں۔کبھی ایسی حدیں بھی پار کر جاتے ہیں کہ اپنے ملک کے با شندوں کو بیچنا شروع کر دیتے ہیں،کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ ملک دو لخت کروا بیٹھتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جعلی پولیو ویکسین کی مہم چلاتے ہیں۔یہ ہماری لالچ کے رنگ ڈھنگ ہیں۔ہر کسی کا اپنی بساط کے مطابق ،عہدے اور اختیارات ، اور حیثیت کے مطابق لالچ اور حرص کا معیار ہے۔

بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مذکورہ واقعہ جہالت اور کم علمی کا نتیجہ ہے۔لیکن اگر حقیقت ملاحظہ فرمائیں گے تو ایسا بھی کچھ نہیں ہے۔ہمارے ہاں تعلیم کی کمی نہیں ہے،لوگ جاہل نہیں ہیں۔ہمارا مسئلہ ہماری تربیت کا ہے۔ہماری زندگیوں سے مذہب مکمل طور پر نکلتا جا رہا ہے بلکہ نکل چکا ہے اور یاد رکھئے کہ مذہب (چاہے کوئی بھی ہو) جب زندگی میں نہ رہے تو زندگی میں ، معاشرے میں اور اقوام میں تہذیب اور اخلاقیات فوت ہو جاتی ہیں ،اور ہاں مذہب صرف عبادات کا نام نہیں ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے اب ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکے ہیں اوردولت بنانے میں مصروف ہیں اور بورڈ میں اور یونیورسٹیوں میں ٹاپ کرنے پر توجہ مرکوز کیئے ہوئے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ادارے کی طرف راغب کیا جا سکے۔

ہمارے مدارس اور مذہبی تعلیمی ادارے ایسی لکیر کھینچنے میں مصروف ہیں کہ اِس پار مسلمان اور مدرسے کے باہر کے لوگ ہمارے مذہب سے نہیں۔علمائے کرام منبر و محراب سے مخالف مکتبہ فکر کے خلاف فتوے دینے میں مصروف ہیں۔ہمارا میڈیا قوم اور خصوصاًنوجوانوں کو مغرب کی رنگینیاں دکھا کر اسکی تقلید کی طرف مائل کر رہا ہے۔ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں اتنا گر چکے ہیں کہ سب ہی گندگی سے لت پت ہو چکے ہیں۔والدین بھی بچوں سے فرسٹ پوزیشن اور گولڈ میڈل اور پھر اسکے بعد لاکھوں کی نوکری کی ڈیماند لیئے کھڑے ہیں۔جسکی وجہ سے تعلیم بڑھتی جا رہی ہے ، علم میں بھی شاید اضافہ ہو ہی رہا ہے مگر عمل ختم ، سلیقہ ختم، آداب ندارد ،تہذیب کی موت، اخلاقیات کا فقدان اور مذہب سے لا تعلقی ہمارے معاشرے کا مقدر بن چکی ہے۔ جب معاشرے کے تمام طبقات جو کہ تربیت کے ادارے بھی ہیں ، جو قومیں بناتے ہیں ، جو ملکوں کے مستقبل کے خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں ،جو تقدیریں بدلنے کی قوت اور صلا حیت رکھتے ہیں ،وہ اپنے فرائض یوں ادا کرینگے تو یاد رکھیئے گا ،سانحہ احمد پور شرقیہ آخری نہیں ہے۔پاکستان میں علم اور تعلیم کی کمی نہیں ،نہ ہی پڑھے لکھے افراد کی کمی ہے ، صرف تربیت کا مسئلہ ہے ، صرف تربیت کا۔

Muhammad Saleem Tufani

Muhammad Saleem Tufani

تحریر : محمد سلیم طوفانی
0323-5700932
saleemtufani@gmail.com