ایڈزکے علاج کے لئے استعمال ہونے والی ادویات کے بہت سے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں ،امریکن سوسائٹی آف جین تھیراپی نے اپنی ایک تحقیق کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جین تھیراپی کے ذریعے ایچ آئی وی اور ایڈز کا علاج ممکن ہے۔
دنیا نے پہلی بار ایڈز کا نام 1980 کی دہائی کے اوائل میں سنا۔ شروع میں خیال کیا گیا کہ شاید یہ بیماری صرف ہم جنس پرستی سے ہی ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتی ہے مگر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے بہت سے ملکوں میں اور خاص طور پر براعظم افریقہ میں اس بیماری کے وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ آج کل دنیا بھر میں ہرسال تقریبا پانچ لاکھ افراد ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہوتے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جبکہ ایڈز کی وجہ سے ہونے والی سالانہ ہلاکتوں کی تعداد بیس لاکھ کے قریب ہے۔
اس بیماری کے علاج اور اس کی وجہ بننے والے وائرس سے بچاؤ کی تدبیریں ڈھونڈنے کے لئے کی جانے والی تحقیق پر اب تک کروڑوں ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، ابھی تک ایڈز کو موت کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے۔
اس بیماری سے متاثرہ افراد میں بچوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے ایڈز کا سبب بننے والا ایچ آئی وی وائرس اتنا پیچیدہ اور طاقتور ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اُس میں دواؤں کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے اور 1990 کے آغاز میں اس بیماری کے علاج کے لئے جو ادویات استعمال کی گئیں، وہ بتدریج بے اثر ہوتی گئیں۔ لہذٰا بعد میں ایڈز کے کنفرمڈ مریضوں کو ایسی دواؤں کا مرکب دیا جاتا رہا، جو اس وائرس میں قوت مدافعت پیدا نہیں ہونے دیتیں اور اس وائرس کو تیزی سے بڑھنے نہیں دیتیں۔ ان ادویات سے ایڈز کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی۔ ایڈز سے متاثر ہونے والے افراد فوری موت کی بجائے لمبے عرصے تک زندہ رہنے کے قابل تو ہوگئے مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایسے مریضوں کو یہ ادویات بقیہ پوری زندگی لینا پڑتی ہیں اور دوسرے ان دواؤں کے سائیڈ ایفکٹس یا ضمنی اثرات کی وجہ سے دیگر بہت سے طبی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ امریکن سوسائٹی آف جین تھیراپی نے اپنی ایک حالیہ تحقیق کے بعد یہ امید ظاہر کی ہے کہ جین تھیراپی کے ذریعے ایچ آئی وی اور ایڈز کا مکمل علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حفاظتی جین شامل کئے گئے سٹیم سیل اس بیماری کا مکمل علاج ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں اب تک ایڈز سے متاثرہ 74 مریضوں پر اس طرح کے تجربات کئے گئے ہیں، جن کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور خوش قسمتی سے ابھی تک کوئی بھی خطرناک سائیڈ افیکٹس سامنے نہیں آئے ہیں۔
Gene therapy
اس تحقیق پر کام کرنے والی ٹیم کے سربراہ اور کیل امیونے Calimmune انکارپوریشن کے سینیئر ریسرچ ڈائریکٹر ڈاکٹر جیف سائمنڈز (Dr. Geoff Symonds) کے مطابق یہ تحقیق ایڈز کے علاج کے سلسلے میں ایک بہت ہی اہم پیشرفت ہے، اور اس سے مستقبل میں جین تھیراپی کے ذریعے مختلف بیماریوں کے علاج کی راہ ہموار ہو سکےگی۔
1996 سے قائم امریکن سوسائٹی آف جین تھیراپی دراصل اس میدان میں کام کرنے والے محققین کی سب سے بڑی سوسائٹی ہے، جس سے امریکہ کے علاوہ دنیا بھر کے ڈھائی ہزار سے زائد محققین وابستہ ہیں۔