عید الفطر روزہ داروں کے لئے اللہ پاک کی جانب سے ملنے والا خوبصورت انعام ہے مگر کرونا وائرس اور کراچی کے قریب طیارہ حادثہ نے پورے پاکستان کو دکھی اور غمزدہ کردیا ہے کراچی حادثہ سمیت پچھلے تمام فضائے حادثات کا میں آج یہاں ذکر کرونگا مگر ایک خاص پیغام کہ عید کے دن ہمیں باقی کاموں کے ساتھ ساتھ صفائی کا بھی خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ صفائی ہماری زندگی کا اہم جز ہے صحت مند ماحول وقت کی اہم ضرورت ہے اس سے بیماریوں سے بچاؤ کیا جاسکتا ہے دین اسلام نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے بد قسمتی سے اس سنہرے اصول پر غیر مسلموں نے زیادہ توجہ دی ا ور عمل کیا۔
مسلمانوں نے اسے صرف تقاریر اور درسی کتابوں تک محدود کردیا وقت کے ساتھ اس کی اہمیت نمایاں ہوئی تو اس پر توجہ دی گی ہم اس اصول کو عملی جامہ پہنانے کی کاوش کررہے ہیں مانتے ہیں کہ صفائی ستھرائی کی ذمے داری حکومتی اداروں کی ہے لیکن عوام کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ کچرے کی مخصوص جگہوں کہ بجائے خالی پلاٹوں یا گلی کے کونے پر کچرا ڈال دیا جاتاہے جہاں سے گندگی پیدا ہوتی ہے اور پھر وہی سے بیماریاں بھی جنم لیتی ہے اب آتے ہیں فضائی حادثات کی طرف عید سے ایک دن قبل کراچی انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے قریب لاہور سے آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) کا مسافر طیارہ گرکر تباہ ہوگیا جس کے نتیجے میں 96افراد کے جان سے گذر گئے طیارے میں 91 مسافر اور عملے کے7 ارکان سوار تھے۔طیارہ لینڈنگ سے چند سیکنڈ پہلے گر کر تباہ ہوا، پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کا رابطہ لینڈنگ سے ایک منٹ پہلے ٹوٹا، جہاز ماڈل کالونی کے علاقے جناح گارڈن کی آبادی پر گرا پہلے طیارے میں آگ لگی اور انجن سے شعلے نکلے۔
پائلٹ نے ڈولتے طیارے کو اوپر اٹھانے کی کوشش بھی کی لیکن درمیان میں ایک چار منزلہ عمارت آگئی، جس سے طیارے کا پچھلا حصہ بلند عمارت سے ٹکرایا تو جہاز مکانوں پر آگرا۔ رہائشی علاقے میں طیارہ گرنے سے مکانوں اور گاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی دم کے بل گرنے کی وجہ سے طیارے کے اگلے حصے میں بیٹھے بعض مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے طیارے میں سوار مسافروں میں 51 مرد،31 خواتین اور 9 بچے شامل ہیں۔طیارے میں بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود اور سینئر صحافی چینل 24 کے پروگرامنگ ڈائریکٹر انصار نقوی بھی سوار تھے جو اس حادثے میں معجزانہ طور پر محفوظ رہے ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں جلد سے جلد صحت اور تندرستی عطا فرمائے۔آمین جبکہ اسی طیارہ حادثہ میں بہت ہی خوبصورت انسان،ملنسار دوست اور درد دل رکھنے والے خالد شیر دل بھی زندگی کی بازی ہار گئے ان جیسے انسان دوست فرد صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔
اللہ کریم اس حادثہ اور اس سے قبل ہونے والے تمام حادثات اور بلخصوص کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے تمام افراد کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور انکے لواحقین کو ان صدمات کو برداشت کرنے کی ہمت،جرات اور حوصلہ عطا فرمائے۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک 13فضائی حادثات ہو چکے ہیں اور ان حادثات میں تقریبا 875افراد اپنے پیاروں سے جدا اور درجنوں زخمی ہوگئے20مئی 1965کو پی آئی اے کا طیارہ قاہرہ ائر پورٹ دوران لینڈنگ تباہ ہونے سے 124افراد جان سے گذر گئے تھے،اگست 1970میں راولپنڈی کے قریب روات میں فوکر طیارہ گرنے سے 30افراد جان بحق ہوگئے تھے 8دسمبر 1972کو ایک اور فوکر طیارہ راولپنڈی کے قریب گر گیا تھا جس کے نتیجہ میں 26مسافر خالق حقیقی سے جا ملے،نومبر 1979میں حاجیوں کو واپس لاتے ہوئے پی آئی اے کا طیارہ طائف اور1986میں پشاور کے قریب فوکر تباہ ہوا ان دو حادثات کے نتیجہ میں 200کے قریب افراد جانبحق ہوگئے تھے،اگست1989کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ گلگت کے قریب پہاڑوں میں لاپتہ ہوا اور آج تک اسکا ملبہ سکا نہ ہی لاشیں،ستمبر 1992میں پی آئی اے کا طیارہ کھٹمنڈوں کے پہاڑوں سے ٹکرا گیا اور 155مسافر جان سے چلے گئے تھے۔
جولائی 2006کو پی آئی اے کا طیارہ ملتان کے قریب گر کر تباہ ہوا جس میں 41مسافر جاں بحق ہوئے تھے،جولائی 2010میں میں ائر بلیو کی پرواز اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا گئی جسکے نتیجہ میں 152مسافر اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اس حادثہ کے ٹھیک دو سال بعد اپریل 2012میں بھوجا ائر لائن کا طیارہ اسلام آباد کے قریب لوئی بھیر میں گر کر تباہ ہوگیا اور127مسافر جان سے چلے گئے،نومبر 2010کو ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہونے سے 12افراد موت کی وادی میں چلے گئے اسی طرح ہری پور کے علاقہ حویلیاں میں دسمبر 2016کو طیارہ گرنے سے 48مسافر اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے تھے جن میں جنید جمشید بھی شامل تھے امید ہے کہ اس بار جو بھی اس حادثہ کی رپورٹ آئے گی اس پر عمل بھی کیا جائے گا۔