قبلہ غلام رسول شاہد مدظلہ تعالیٰ

Gulam Rasool Shaihd

Gulam Rasool Shaihd

شیخِ سلسلہ عالیہ توحید یہ قبلہ غلام رسول شاہد مدظلہ تعالیٰ ایک درویش منش انسان ہیں جو نفسا نفسی کے اس دور میں بھی محض اللہ کی رضا کے لیے محبت کے چراغ جلائے ہوئے ہیں۔ آپ کا مشن و مسلک فلاح ِ ملت، دینِ اسلام کی سربلندی اور اخلاقِ عالیہ کا فروغ ہے۔ آپ کی نظر میں ملتِ اسلام کی بقا کے لیے جینا ومرنااور محض اللہ ہی کے ہو رہنا زندگی کی اصل ہے۔آپ کو بچپن ہی سے حقیقت کی تلاش اور ذکر و فکر کا شوق تھا جس کی تکمیل کے لیے آپ زیادہ وقت محلے کی ایک مسجد میں گزارتے اور کسی نہ کسی بزرگ کی صحبت میں رہنا پسند کرتے۔ چھٹی جماعت میں تھے کہ آپ اپنے ایک دوست خواجہ مسعود الحسن کے توسط سے سلسلہ چشتیہ صابریہ کے معروف بزرگ حضرت خواجہ غلام محی الدین خان مدظلہ تعالیٰ کے دست شفقت پر بیعت ہوگئے، بیعت کے چند روز بعد ہی آپ سے کشف و کرامات کا ظہور ہونے لگا۔ حالت خواب میں اکثر آپ کی ملاقات اولیاء کرام سے ہوتی جن میں بابا فرید الدین گنج شکر اور کئی دوسرے بزرگ بھی شامل تھے۔

آپ کے اپنے آباؤ اجداد مشرقی پنجاب کے ایک گاؤں سہالہ میں آباد تھے مگر پاکستان بننے سے کوئی تیس برس قبل ضلع انبالہ میں منتقل ہوگئے تھے۔ یہ گھرانہ ایک علمی اور مذہبی گھرانے کے طور پر معروف تھا اور اس کا روحانی تعلق سلسلہ قادریہ اور سلسلہ نقشبندیہ سے تھا۔ زیادہ تر آبائو اجداد سہالہ ہی میں دفن ہیں جبکہ آپ کے والد ماجد شیخ عبدالرحمٰن ہاشمی کے نانا جان حضرت جیوے شاہ کا مزار کمال پور کے قریب مرجع خلائق ہے۔ہاشمی صاحب کے والدین پاکستان بنتے وقت شہید ہوگئے اور آپ پاکستان چلے آئے۔کچھ عرصہ ملتان میں رہے اور شادی کے بعد فیصل آباد آگئے جہاںکچھ عرصہ لائل پور کاٹن ملز میں ملازمت کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا ۔ قبلہ غلام رسول شاہد صاحب کی ولادت فیصل آباد ہی میں ہوئی۔آپ زمانہ طالب علمی میں ایک ہونہار طالب علم کے طور پر جانے جاتے تھے اور اکثر اساتذہ آپ سے محبت رکھتے تھے۔

ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی آپ کی دلچسپی نمایاں تھی اپنے سکول کی ادبی تنظیم کے سیکریٹری ہونے کے ساتھ آپ فٹ بال، بیڈمنٹن اور اتھلیٹکس وغیرہ میں باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے اور آپ کا یہ شوق پاک فضائیہ کی ملازمت کے دوران بھی جاری رہا۔پاک فضائیہ میں آپکی شمولیت کی بنیادی وجہ 1965ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ تھی جس نے آپ کو ذوقِ شہادت بخشا چنانچہ 1971ء میں آپ نے ایئر فورس میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تاآنکہ اپنے ہادی و مرشد قبلہ عبدالستار خان کے وصال شریف کے بعد آپ نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تاکہ سلسلہ عالیہ کی آب یاری پورے خلوص اور یکسوئی سے کرسکیں۔ اس وقت آپ پاک فضائیہ میں سکواڈرن لیڈر تھے۔

آپ کا سلسلہ چشتیہ صابریہ میں بیعت ہونے کے باوجود سلسلہ عالیہ توحید یہ کی تعلیمات سے متاثر ہونا اور بانیٔ سلسلہ توحیدیہ حضرت خواجہ عبدالحکیم انصاری کے دستِ مبارک پر باقاعدہ بیعت ہونے کا محرک یہ بنا کہ سلسلہ چشتیہ میں اکثر مریدین حالت جذب یا ذکر کے دوران ”یا فرید”کا نعرہ لگاتے تو آپ کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا کہ ہماری منزل جب اللہ کا قرب و لقاء ہے تو ہم ”یا اللہ”کیوں نہیں پکارتے؟ مگر سوئے ادب آپ نے یہ سوال اپنے مُرشد پاک سے کبھی نہ کیا۔ 1972ء کے شروع کی بات ہے کہ حالتِ خواب میں آپ کی ملاقات سلسلہ مداریہ کے ایک بزرگ سید احمد حسن شاہ صاحب سے ہوتی ہے جو آپ کے دادا حضور کے گہرے دوست اوران کے خُسر حضرت جیوے شاہ کے خاص عقیدت مند تھے۔ خواب میں فرما رہے ہیں کہ” بیٹا جس مرشد کے پاس تمہارا حصہ ہے ہم تو اس کے قدموں کی خاک برابر نہیں۔اللہ اللہ کرتے رہو، وہ آپ کو جلدہی مل جائیں گے”۔ اس وقت آپ پاک فضائیہ میں ایک تربیتی کورس پر کراچی میں مقیم تھے۔

دوسرے روز مسجد میں آپ نے نماز مغرب کے بعدقبلہ انصاری صاحب کے ایک مرید جناب عبدالمجید ستاری کو دیکھا جو نماز کے بعد خاموشی سے ذکر و فکر میںمشغول تھے۔آپ انہیں کسی طور نہ جانتے تھے مگرآپ کا جی چاہا کہ ان سے ملا جائے۔ چنانچہ آپ ان کے قریب جابیٹھے۔ جیسے ہی عبدالمجید صاحب ذکر سے فارغ ہوئے تو آپ نے ان سے دعا کے لیے کہا۔ جواباً جناب مجید صاحب نے کہا کہ ”کیا دعا کروں”؟ آپ کی زبان سے برملا نکلا کہ ”اللہ کا قرب چاہیئے”عبدالمجید صاحب یہ سن کر خاموش ہوگئے اور دوسرے روز ملنے کو کہا۔یوں کوئی تین چار ماہ تک ملاقات تو متواتر ہوتی رہی مگر بات آگے نہ بڑھی ۔اسی سال رمضان شریف کی آمد آمد تھی کہ ایک روز جناب مجیدستاری صاحب نے آپ کو ذکر پاس انفاس کا طریقہ سکھادیا۔ بس طریقہ ذکر سیکھنا تھا کہ دنیا بدل گئی۔پھر آپ نے قبلہ انصاری صاحب کی کُتب کا مطالعہ کیا اور آپ کو یقینِ کامل ہوگیا کہ یہی وہ مطلوبہ بزرگ ہیں جن کے ذریعے اللہ کا قرب و لقاء میسر آسکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے سلسلہ چشتیہ کے بزرگ حضرت محی الدین خان صاحب کی خدمت میں خط لکھا اور قبلہ انصاری کے ہاتھ پر بیعت ہونے کی اجازت چاہی، جو انہوں نے بخوشی مرحمت فرمادی۔ یوں آپ قبلہ انصاری صاحب کے ایک مجازکے ذریعے بیعت ہوکر سلسلہ عالیہ توحیدیہ میں شامل ہوگئے اور پھر آپ کی خدمت میں حاضری کے لیے لاہور آئے۔ جہاں آپ کو بانی سلسلہ قبلہ عبدالحکیم انصاری صاحب نے آپ پر خصوصی شفقت فرماتے ہوئے دوبارہ بیعت لی اور اپنی ارادت میں شامل فرمالیا۔

Khawaja Abdul Hakeem

Khawaja Abdul Hakeem

اس وقت آپ بانیٔ سلسلہ عالیہ توحیدیہ خواجہ عبدالحکیم انصاری کی تعلیمات اور فیضان نظر کے امین اور آپ کے واحد خلیفہ و جانشین شیخ قبلہ خواجہ عبدالستار خان کے واحد خلیفہ و جانشین ہیں۔ جنہوں نے مناسب وقت آنے پر خود اپنے دستِ مبارک سے آپ کو دستارِخلافت عطا فرمائی اور تمام احبابِ حلقہ سے اپنی زندگی میں آپ کی تابع فرمانی کی بیعت لی بانی سلسلہ قبلہ انصاری صاحب کے خلیفہ و جانشین شیخ قبلہ عبدالستار خان صاحب آپ کے ساتھ بے انتہامحبت رکھتے تھے اور انہوں نے آپ کو اپنا بیٹا بنا رکھا تھا۔ 1977ء قبلہ انصاری صاحب کے وصال شریف کے بعد کچھ لوگ حلقہ سے الگ ہوگئے ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو خلافت کے خواہش مند اور ریاکارتھے۔ ایسے میں حلقہ منظم اور فعال کرنے اور انہیں مرکز سے پیوست رکھنے میں قبلہ شاہد صاحب کا کردار بڑا نمایاں رہا۔ آپ کا اپنے ہادی و مرشد کے ساتھ قلبی تعلق بہت گہرا تھا جس کا اندازہ درج ذیل چند واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔

اپریل 1978ء میں قبلہ عبدالستار خان صاحب احباب ِ حلقہ پشاور کی دعوت پر وہاں تشریف لے گئے۔ ان دنوں قبلہ شاہد صاحب بھی پشاور ہی میں تعینات تھے مگر منصبی ذمہ داریوں کی وجہ سے قبلہ کے استقبال کے لیے حاضر نہ ہوسکے۔صبح کوئی گیارہ بجے کا وقت تھا کہ قبلہ خان صاحب آپ کے میزبان ایس ڈی او جمیل صاحب جنہیں کشف و کرامات سے بڑی دلچسپی تھی، آپ کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ قبلہ آپ کے بیٹے شاہد صاحب تو آپ کے استقبال کے لیے آئے ہی نہیں۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں؟ قبلہ عبدالستار خان صاحب نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا۔ ”وہ سامنے جہاز دیکھو جو شمال کی طرف جا رہا ہے۔ شاہد صاحب اس وقت اسی جہاز میں محوِ پرواز ہیں۔ ان شاء اللہ آدھ گھنٹے تک آجائیں گے۔ ٹھیک آدھ گھنٹہ بعد آپ جمیل صاحب کے گھر موجود تھے مگر جمیل صاحب نے آپ کو دروازہ پر ہی روک لیا اور کہا کہ قبلہ صاحب سے ملاقات اس وقت نہ کروائوں گا جب تک یہ نہ بتادو کہ آدھا گھنٹہ قبل آپ کہا ںتھے ؟… آپ نے برجستہ جواب دیا ”جب قبلہ صاحب نے آپ کو آدھ گھنٹہ قبل درست جواب دے دیا تھا کہ بندئہ ناچیز فلائنگ ڈیوٹی پر تھا اور آپ کے گھر کے عین اوپر سے گزر رہا تھا تو پھر مجھ سے کیوں پوچھتے ہو”؟

اسی طرح 1978ء میں قبلہ خاں صاحب احباب حلقہ سے ملنے ٹوبہ تشریف لے گئے اور آپ کو آستانہ شریف میں چھوڑ گئے تاکہ قبلہ کی غیر موجودگی میں آستانہ عالیہ پر حاضری دینے ولے مہمانوں کی دیکھ بھال کرسکیں۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ قبلہ خاں صاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ کی محفل کو رونق بخش رہے تھے تو آستانہ شریف میں ایک صحافی واصف علی واصف اپنے چند دوستوں سمیت تشریف لے آئے۔چنانچہ یہاں بھی روحانی مجلس جم گئی۔قبلہ خان صاحب دورہ سے واپس تشریف لائے تو پتہ چلا کہ جو گفتگو قبلہ خان صاحب ٹوبہ میں کررہے تھے انہی الفاظ میں وہی گفتگو آستانہ شریف میں ہوئی۔ کراچی کے ایک خادم حلقہ مرحوم فاروق بھائی نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک روز وہ قبلہ خان صاحب کی خدمت میں حاضر تھے ۔بات چیت ہورہی تھی کہ اچانک قبلہ خان صاحب نے ہاتھ اٹھا کر قبلہ شاہد صاحب کی درازی عمر اور صحت کے لئے دعا مانگنا شروع کردی۔ اُن دنوں قبلہ شاہد صاحب سعودی عرب میں تھے۔اس اچانک دعا کرنے پر ہم حیران بھی تھے اور کچھ پریشان بھی کہ قبلہ شاہد صاحب خیریت سے ہوں۔ چند روز بعد قبلہ شاہد صاحب چھٹی پر لاہور آئے تو ان سے واقعہ ذکر کیا گیا۔

انہوں نے فرمایا کہ” اس وقت وہ بیت اللہ شریف میں دوران طواف یہ دعا مانگ رہے تھے کہ اللہ میری بقیہ زندگی میرے مرشدِ معظم قبلہ خان صاحب کی نذر کردے”یہ روحانی و قلبی تعلق کا کمال تھا کہ قبلہ خان صاحب نے عین اسی وقت ان کے لئے دعا شروع کردی۔ الغرض، آپ کے مُرشد معظم نے آپ سے ایسی محبت کی کہ مُرشد پاک کی اہلیہ المعروف امّی حضور آپ کو اکثر”خان صاحب کا خسرو”کہہ کر پکارا کرتی تھیں اور خود بھی قبلہ شاہد پربڑی شفقت فرماتیں۔ قبلہ شاہد صاحب کا یہ حال تھا کہ کراچی میں ہوں یا پشاور میں، ہر ہفتہ واری چھٹی پر آستانہ عالیہ پر اپنے پیارے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایسے میں طویل سفر کی وجہ سے آپ اکثر رات گئے آستانہ عالیہ پہنچتے مگر اپنے پیارے مرشد اور ان کی اہلیہ کو اپنا منتظر پاتے۔

یہ قبلہ مُرشد پاک کی نظر عنایت ہی تھی کہ 1980ء میں اپنی اکلوتی صاحبزادی ”اُمّ کلثوم”کو آپ کے عقد میں دے دیا اور اپنے وصال سے قبل اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں آپ کو اپنا واحد خلیفہ و جانشین مقرر فرماکر تمام احبابِ حلقہ سے بیعتِ خلافت بھی لی۔ اس موقع پر شاہد صاحب کی اہلیہ نے اپنے وا لدِ ماجد سے بڑے ادب کے ساتھ سوال کیا کہ ہم تو آپ کے اہلِ بیت میں سے ہیں اور بانیٔ سلسلہ قبلہ انصاری صاحب کی خواہش تھی کہ سلسلہ توحیدیہ وراثتی گدی نہ بننے پائے۔ اس پر قبلہ مرشد پاک کا جواب یہ تھا کہ ”میں شیخ سلسلہ کی حیثیت میں حلقہ کے قوانین میں ترمیم کرسکتا ہوں مگر اللہ کا حکم نہیں ٹال سکتا۔…شاہد صاحب کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کرنا میرا نہیں بلکہ اللہ کا فیصلہ ہے”۔ بعدمیں ایک موقع پر فرمایا کہ ”شاہد صاحب کے بارے میں قبلہ انصاری صاحب کی بھی ایسی ہی خواہش تھی اور انہوں نے اسے اپنے خاندان میں شامل کرلیا ہے۔” اس پر محترم بھائی صوفی بشیر احمد صاحب کا وہ واقعہ یاد آگیا کہ 1973ء میں جب قبلہ شاہد صاحب نے قبلہ انصاری صاحب کے دستِ محبت پر باقاعدہ بیعت کر لی تو انہوں نے کراچی میں مقیم بشیر احمد صاحب کو کہلوا بھیجا کہ تم غلام رسول شاہد کی تربیت کرو ہم تمہیں ”کورٹ آف آرم” دیں گے۔

Allah

Allah

کورٹ آرم ائیر فورس میں وارنٹ آفیسر بننے پر ملتا تھا اور بشیر صاحب اس وقت سینئر ٹیکنیشن تھے جن کا وارنٹ آفیسر بننا مستقبل قریب میں دکھائی نہ دیتا تھا۔ مگر اللہ تو اپنے اولیاء کرام کی ہمیشہ لاج رکھتا ہے۔ کوئی چھ ماہ گزرے ہوں گے کہ ائیر فورس کی پالیسی بدلی اور جناب بشیر صاحب قبل از وقت وارنٹ آفیسر بنا دیئے گئے۔ ان دنوں قبلہ شاہد صاحب کی کیفیات میں جذب کا رنگ غالب تھا جس کی ایک مثال ان کے ایک دوست ریٹائیرڈ ونگ کمانڈر لیاقت علی وڑائچ کا واقعہ ہے۔ قبلہ شاہد صاحب لیاقت صاحب کے ہمراہ صوفی بشیر صاحب سے ملنے گئے۔ واپسی پر خدا حافظ کرتے ہوئے جونہی لیاقت صاحب قبلہ شاہد صاحب کو گلے ملے ،بیہوش ہوکر گر پڑے۔ قبلہ شاہد صاحب نے انہیں اٹھایا اور بشیر صاحب کے پاس دوبارہ لے گئے۔ انہوں نے تنبیہہ فرمائی کہ قبلہ شاہد صاحب کو گلے نہ ملیں مگر خدا حافظ کہتے وقت نادانستہ طور پر وہ دوبارہ گلے ملے او روہی ہوا جو پہلے ہوا تھا۔ تیسری مرتبہ پھر تنبیہہ کی گئی چنانچہ گلے ملنے کی بجائے ہاتھ ملا کر خدا حافظ کرنا چاہا مگر پھر وہی بے ہوشی۔چنانچہ صوفی بشیر صاحب نے دونوں کو علیحدہ علیحدہ رخصت کیا۔

کشف و کرامات کے واقعات توبے شمار ہیں مگر دیکھنا یہ ہوتا ہے ، کشف و کرامات اور روحانی تصرفات سے کونسا کام لیا جائے۔ آپ کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کئی فاسق و فاجر اور گنہگار لوگ آپ کے فیضانِ نظر سے گناہوں کی دلدل سے نکل کر اعلیٰ درجے کے مسلمان بن گئے۔ آپ کے توسّل اور توجہ سے کئی طالبانِ حق کو اللہ تعالیٰ کا قرب و لقاء نصیب ہوا۔

آپ کی نظر میں تصوف اللہ ہی کے ہورہنے کا نام ہے ۔جس کی بہترین صورت مخلوقِ خدا کی خدمت ہے۔ اللہ کا قرب و لقاء، اس کی معرفت و حکمت اور دیدار اس کی منزل ، خیر و شر کی پہچان، عقلِ سلیم اور قلبِ سلیم اس کے ثمرات ہیں مگر اس کے لیے پہلی شرط طلب خالص ہے جو اولیاء اللہ کی صحبت کے بغیر پیدا نہیں ہوتی۔ دوسری شرط مرشد سے محبت و عقیدت اور اس کی بلا چوں وچرا اطاعت ہے جبکہ تیسری چیز ثابت قدمی یعنی صبر استقلال ہے۔ ایک اور اہم نکتہ وسواس الخناس اور شکوک و شبہات سے بچنا اور محض اللہ کے لیے بیعت ہونا ہے۔ اگر کوئی شخص مرشد کے ہر حکم پر سر خم تسلیم نہیں کرتا اور خود پیر بن کر مزے اڑانے کے خواب دیکھنایا اپنے علم و عقل کو اپنے ہادیٔ مُرشد کے مقابل سمجھتا ہے تو اس کی دنیا و دین تباہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے شخص کے لیے بہتر ہے کہ کسی کا بیعت نہ ہو اور تصوف و طریقت سے کنارہ کش رہے۔

آپ نے سلسلہ عالیہ کی تعلیمات کے فروغ کیلئے ”زادِ راہ” ، ”پہچان” اور ”ماہنامہ مومن” کے نام سے رسائل بھی جاری کئے جن میں ماہنامہ مومن ایک زندگی آمیز اور حکمت آموز مجلہ ہے۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان پر تقاریر اور اخبارات میں کالم نگاری بھی کی مگر یہ سب کچھ اس لیے چھوڑ دیا کہ احبابِ حلقہ کی تربیت آپ کی پہلی ترجیح ہے اور اس کے لیے احبابِ حلقہ کو وقت دینا انتہائی ضروری امر ہے۔

آپ کا آستانہ عالیہ پاکستان کے دل اور حضرت داتا صاحب کی نگری شہرِ لاہور کے صاف ستھرے علاقے ماڈل ٹائون میں واقع ہے جہاں ہفتہ واری حلقہ ذکر، درسِ قرآن، دورئہ حدیث، حکمت و معرفت کی مجالس اور مختلف موضوعات زندگی پر سیمیناروں کا باقاعدہ انعقاد ہوتا ہے ۔آپ اس لحاظ سے بڑے خوش نصیب ہیں کہ آپ کی زوجہ محترمہ نیکی پھیلانے کے اس مشن میں آپ کی ہمدوش و ہم رکاب ہیں درس و تدریس سمیت عورتوں کے زیادہ تر معاملات انہیں کے سپرد ہیںرشد و ہدایت اور دعا وغیرہ کی غرض سے آستانہ عالیہ آنے والی خواتین کو تمام تر رہنمائی انہی سے ملتی ہے تاہم اگر کوئی خاتون بیعت ہوکر باقاعدہ طور پر حلقہ توحیدہ میں شامل ہونے کی طلبگار ہو تو بعیت صرف شیخ سلسلہ جناب شاہد صاحب کے ہاتھ پر ہوتی ہے۔خواتین کے لیے لاہور میں بیسیوں جگہ درسِ قرآن، دورہ حدیث اور مجالس حکمت کا انعقاد بھی ان ہی کے زیر پرستی ہوتا ہے۔یوں قبلہ خواجہ عبدالستار خان صاحب اپنی صاحبزادی کی صورت میں ایک صدقہ جاریہ چھوڑ گئے ہیں جو تمام احباب حلقہ کے لیے سراپائے دعا اور مجسم خیر ہے۔

سیاست اور فرقہ واریت سے آپ دونوںکا کوئی تعلق نہیں ۔ آپ کے نزدیک دین اسلام کی موجودگی میں ہمیں کسی ازم اور خود ساختہ نظاموں کی ضرورت نہیں ۔ اگر ضرورت ہے تو اس اَمر کی کہ انسانوں کی بہترین تربیت کی جائے ۔ مسلمانوں کو اعلیٰ درجے کے مومن اور موحد بنایا جائے جو حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلائی ہوئی شمع توحید کے پروانے اور آنحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے محب اور پیروکار ہوں اور تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ہدایت یافتہ بھی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قلبی بصیرت کے ساتھ جدید علوم پر بھی خاصی دسترس عطا فرمائی ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے۔ آپ اپنے مُرشد کے محبوب مرید ، والدین کے ہونہار بیٹے، بچوں کے شفیق والد اور مریدین کے لیے سایہ شفیق ہیں۔

سلسلہ عالیہ میں شامل ہوتے ہی آپ نے اپنا سب کچھ اس مشن کے لیے وقف کردیا بھولے بھٹکے انسانوں کو اللہ کی راہ دکھانا آپ کے نزدیک سب سے بڑی نیکی ہے اور آپ کے نزدیک اسلام میں رہبانیت کی نفی اسی بناء پر کی گئی کہ رہبانیت اختیارکرنے والے معاشرہ سے دور رہنے کی وجہ سے اس کی خدمت و اصلاح کا فریضہ ادا نہیں کرپاتے ۔ قریہ قریہ ،گائوں گائوں ، شہر شہر اور ملک ملک، اپنے محبت بھرے انداز سے آپ حلقہ عالیہ کی وسعت و رفعت اور اسلام کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ آپ کی ہر سوچ اور فکر میں قبلہ انصاری صاحب کی تعلیم و تربیت کا عکس نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ آپ کو رب کریم نے قبلہ عبدالستار خان صاحب جیسا خلقِ جمیل بھی عطا فرمایا ہے۔ دِلی دعا ہے کہ اللہ آپ کا سایہ محبت ہم سب پر قائم رکھے۔ (آمین۔ ثم آمین۔ یا رب العالمین)

Sahibzada Muzeen Rasool Hashmi

Sahibzada Muzeen Rasool Hashmi

تحریر: صاحبزادہ مزیّن رسول ہاشمی