ایئر پورٹ پر انانسمنٹ کا سلسلہ مسلسل جاری تھاآخر کار پاکستانی طیارے کی انانسمنٹ کے ساتھ ہی میں نے ہاتھ میں پکڑے بورڈنگ پاس پر اپنی گرفت مضبوط کی اور دوسرے ہاتھ سے بریف کیس اٹھایا جس میں چند ایک سوٹ اورکچھ ضروری کاغذات تھے ایئر پورٹ سے باہر آکر مطلوبہ طیارے کی لائن میں لگ گیا او ر پھر سست رفتاری سے جہاز کی سیڑھیاں چڑھنے لگاجہاز کی سیڑھیوں پر میرا ایک ایک قدم جیسے ہر گزرے سال کی ایک روداد سنارہا تھا۔
جہاز میں داخل ہوتے ہی ایک یر ہوسٹس نے مجھے خوش آمدید کہااور میرے ہاتھ سے ٹکٹ لے کر سیٹ کی طرف اشارہ کیااور میں اپنا بریف کیس سیٹ کے اوپر بنے ہوئے خانے میں رکھ کر تسلی سے سیٹ پر براجمان ہوگیاجیسے ہی جہاز نے اڑان بھرنے کی تیاری پکڑی دل کی دھڑکنیں بکھر سی ئیں ،خوشی اور غم کی ملی جلی سی کیفیات نے دل کا احاطہ کیا ہوا تھا ایک طرف پردیس کو ہمیشہ کے لئے خیرآباد کہنے کا دکھ تھا اور دوسری طرف اپنے وطن جانے کی خوشی بھی تھی۔
میں افضل جو آج سے تقریبا چالیس سال پہلے گاں کے کچھ اور لڑکوں کے ساتھ ایک ایجنسی کے ذریعے پاکستان سے سعودی عرب آیا تھا اس وقت میری عمر لگ بھگ اٹھارہ ،بیس سال کے قریب تھی توانا ئی سے بھرپور دن تھے، سو خوب محنت کی ،دن رات ایک کردیا اور ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔کمپنی بھی مجھ سے بہت خوش تھی اور معقول تنخواہ دے رہی تھی۔مزید پیسے کمانے کے لیئے اور ٹائم کا م بھی کیا غرض یہ کہ اپنی بھرپور توانا ئی ،محنت اور وقت میں نے اس کمپنی اور ملک کے نام کر رکھے تھے ۔مگر وقت اور حالات صدا ایک جیسے نہیں رہتے ایسا ہی کچھ میرے ساتھ ہوا ۔ اب میری عمر ساٹھ سال ہے اور مجھ میں وہ ہمت اور صلاحیت نہ رہی تھی کہ میں کمپنی کو خاطر خواہ فائدہ دے سکوں تو انہوں نے ایک ہی دن میں مجھے ایسے فارغ کردیا جیسے دودھ میں سے بال اور میری جگہ مجھ سے زیادہ باصلاحیت جوان کو رکھ لیا گیامیری مثال اب اس ناکارہ پرزے کی طرح تھی جس کی نئے سسٹم میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ پیسے کماتے کماتے کب گا ں کے کچے مکان سے اٹھ کر آیا فضلو، افضل اور پھر چوہدری افضل بن گیا اور گاں میں مٹی سے لیپا ہوا مکان تین منزلہ کو ٹھی کی شکل اختیار کر گیا ،والدین کی ذمہ داری،بہنوں کی شادیاں ،پھر اپنی شادی،ایک بیٹی ،اس کی تعلیم اور پھر شادی ،الغرض ذمہ داریوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور ان ذمہ داریوں کو پورا کرتے کرتے زندگی کے ساٹھ سال گزر گئے اور ساری عمر پر دیس میں گزار دی۔
Saudi Arabia
زندگی کے قیمتی چالیس سال جو میں نے اپنوں سے دور سعودی عرب میں گزارے، حلقہ احباب جو اِن سالوں میں دکھ درد کا ساتھی بنا رھا، کمپنی کے ملازمین اور دوست جن کے ساتھ شب و روز گزرے سب جھاگ کی مانند ختم ہو گیا تھا ۔میں آج پھر اسی دوراہے پر کھڑا اپنی منزل کا تعین کرنے میں مصروف تھا۔ مگر دل کے کسی کونے میں زندگی کی امنگ کا دیا روشن تھا جس سے نکلنے والی روشنی کی کرنیں مجھے اپنے وطن کی آزاد فضاں، گاں کے کھیتوں کھلیانوں، وہاں کے سادہ لوگوں اور ان کے خلوص کی یاد دلارہی تھیں ساتھ ساتھ دل اس بات پر پشیمان بھی تھا کہ میں اپنے وطن پاکستان، وطن کی مٹی، اور وہاں کے لوگوں کا مقروض تھا۔ وہ محنت، قابلیت اور خدمت جس کے بل بوتے پر میں اپنے وطن کو آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا تھا وہ سب تو میں پردیس کو دے آیا تھا اور بوڑھے، تھکے ہوئے جسم کے ساتھ واپس لوٹ رہا تھا۔
جہاز کی کھڑکی سے باہرآسمان پر بکھرے ہوئے بادل روئی کے گولوں کی مانند محسوس ہورہے تھے اور میں یہ سو چنے میں مصروف تھاکہ کیا جن لوگوں نے زندگی کے یہ خوبصورت سال اپنے خون کے رشتوں، اپنے گھروالوں کے ساتھ گزارے تھے، کیا وہ مجھ سے بہتر تھے؟ ذہن سوالات سے بھرا ہوا تھاجن کا میرے پاس کوئی جواب نا تھا بس ایک کسک تھی جو مجھے اندر ہی اندر توڑ رہی تھی کتنے ہی دکھ اور خوشیوں کے لمحے تھے جو گزر گئے جب میں پردیس میں پیسے جمع کرنے میں مصروف تھا والدین کی وفات پر ان کے جنازے کو کاندھا دینے چھٹی نا ملنے کی وجہ سے نہیں پہنچ پایا تھا، بیٹی کی پیدائیش پرجب میرا وہاں موجود ہونا سب سے ضروری تھا تب بھی میں ایک تجارتی دورے پر ملک سے باہر تھا، کب میری بیٹی نے چلنا سیکھا، سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پہنچ گئی اور کب اس کی شادی بھی ہو گئی، میں ان سب میں کہاں تھا؟ شاید کہیں بھی نہیں، بس پیسے بھیجنے والی ایک مشین؟ یا سال دو سال بعد چند دن کے لیئے چکر لگا کر میں سمجھتا کہ شائد میں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔
مگر حقیقت تو یہ تھی کہ پاکستان میں رہ کر اگر میں تھوڑا بھی کماتا تو شاید آج مجھے کوئی پچھتاوا نہ ہوتا، میرے دِل میں کسک نہ ہوتی زندگی اپنے رشتوں کے ساتھ گزری ہوتی پرائے دیس میں اس ڈر کے ساتھ نہ جیا ہوتا کہ کب یہ مجھے نکال باہر کریں گیمیں مقروض تھا اپنے گھروالوں کا، اپنے وطن کی مٹی کا اور سب سے بڑھ کر اپنے وطن کا، زندگی کے چالیس سال میں نے پردیس کو دیس سمجھ کر گزار دئیے تھے اور مجھے اپنا آپ اس پرندے کی مانند محسوس ہورہا تھا جس کو آزادی تو مل گئی تھی مگر منزل کا پتہ نہ تھا۔