موجودہ دور کا انسان اپنی ترقی پر بہت نازاں ہے ‘ ما دیت پر ستی میں غرق آج کا انسان ‘ انسان کے اصل حسن سے غافل ہو چکا ہے ‘ ما دیت پر ستی ‘ خو دپرستی ‘ اقتدار پر ستی نے اُسے دیوانہ وار دوڑنے والا ایسا جانور بنا دیا ہے جس نے اچھا ئی برائی کے اپنے ہی معیار بنا لیے ہیں ‘ موجود ہ دور کے تقاضوں کو پورا کر نے کے لیے وہ اندھا دھند اِس برق رفتاری سے سرپٹ دوڑا جا رہا ہے کہ اُس گردو پیش کا بلکل بھی احساس نہیں رہا اور نہ ہی وہ پلٹ کر پیچھے یا دائیں با ئیں دیکھنا چاہتا ہے نہ ہی وہ ایسا کر نا گوارہ کر تا ہے نسل در نسل علم کی منتقلی نے آج کے انسان کو بہت چالاک عیار بنا دیا ہے وہ اپنی قوت گویائی اور علم کے زور پر معاشرے کا راہنما بن جاتا ہے ‘ آجکل آپ میڈیا پر موجودہ دور کے دانشوروں قلم کارو ں’ کالم نگا روں کا انداز بیان ملاحظہ فرمائیں جو الفاظ کی زیادہ جگالی ‘ لفظوں کی شاندار جادوگری کا بر جستہ جواب دوسروں کو زچ کردنے کا آرٹ جانتا ہے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہے اگر کو ئی نیا مرا ثی نما انسا اچھا بو لنے کا آرٹ جانتا ہو تو ہر پارٹی ایسے جگت باز کو اپنی پارٹی کی اگلی صفوں میں جگہ دیتی ہے اُس انسان کا ماضی جتنا سیا ہ کار ‘ لوٹ مار کے عظیم کا رنامے ‘ جھوٹ فراڈ کی طویل داستانیں ‘ قرضے معاف کرانے کا شاندار ریکارڈ ‘ حکومتی پارٹی کا ہم نوالا بننے کا آرٹ ‘ عوام کو داغ دار ماضی سے فرق ہی نہیں پڑتا ‘ الفاظ کو لے کر یہ جادوگر ہر نئی گورنمنٹ کے اقتدار کے جھو لے مزے سے لیتے نظر آتے ہیں۔
آج کے دور کا انسا ن اپنے اِس فن کے زور پر لوگوں کو اپنا پیرو کار بنالیتا ہے ‘ دلیل بازی ‘ بر جستہ گفتگو ‘ دوسروں کو زیر کر نے کا فن کہ بڑے لیڈروں کو اپنا دیوانہ بنا لیتا ہے نکتہ آرائیوں اور سخن سخیوں سے لوگوں کو مسحور کر کے رکھ دیتا ہے حسن کلام سے عوام کا راجہ بن جاتا ہے اور تو اور کو چہ تصوف میںبھی ایسے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے ‘ قبروں میں موجود عظیم نفوس قدسیہ کے مزاروں پر بولنے والے سجادہ نشینوں کا قبضہ ہو گیا جو ہاتھوں میں سچے موتیوں کی مالا لے کر لوگوں کے جذبات کشید کر تے ہیں ۔ عبادت ریاضت ‘ عبا اور قبا میں ملبوس ہو کر اپنی اولیائی کا سکہ جماتے ہیں ‘ الفاظ کی جادوگری سے لوگوں کے دل لبھاتے ہیں ‘ معصوم بے نیاز صورت بنا کر خو د کو مادیت پرست معاشرے کا بے نیاز بندہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں ‘ تقریر کے فن کو بطور استعمال کر کے عوام کے استحصال کا رونا رو کر کو چہ سیاست میں قدم رکھتے ہیں سٹیج پر آکر اپنی زندگی مال و دولت وقت سب کچھ عوام کے لیے لٹانے کا اعلان کر کے خود کو موجودہ دور کا حقیقت میں مخلص لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کر تے ہیں زندگی کا مقصد عوام کی خدمت ‘ عوام کی حالت سدھارنے کا عزم ‘ پھر مو سموں کی شدت سے آزاد ہو کر ملک کے طول و عرض کے دورے کر کے عوام کو بیدار کر نے کا عظیم مشن زند ہ رکھتے ہیں عوام کا درد ‘ عوام کی تکلیف ‘مجھے کچھ نہیں چاہیے میں تو عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہوں ‘ میرے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے یہ ساری جنگ تو عوام کی حالت بہتر بنا نے کے لیے ہے ‘ کوئی ایسے ڈرامہ بازوں سے پوچھے کہ تم نے اپنی اربوں کی جائیدادکیا عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ یا وقف کر دی ہے کیا تم عام سی کار میں پھرتے ہو کیا تم پانچ مرلے کے گھر میں رہتے ہو ۔
یہ اقتدار سے نفرت عوام سے محبت کے دعوے کر تے ہیں اور نسل در نسل مسائل کی چکی میں پسے بے بس لاچار غریب عوام بے بسی کی نیند سے جاگ کر اپنی جوتیاں سروں پر رکھ کر دن رات صبح شام اِن فراڈی لیڈروں کے دروں پر غلاموں کی طرح حاضر ہو تے ہیں یہ لیڈر یہ صوفی درویش راہِ طریقت کے سالک بن جاتے ہیں یہ عوام بیچارے ایسے لیڈروں نام نہاد بزرگوں گدی نشینوں کی کرامات عوام دوستی کے قصے اور کراما ت عوام میں پھیلا کر ایسے لیڈروں اور بزرگوں کو آسمانی مخلوق بنا کر پیش کر تے ہیں حقیقی مسیحا بن کر پیش کر تے ہیں سیاستدانوں کو اپنے خوابوں کا مرکز بناتے ہیں اِن کی قسموں کا اعتبار کر تے ہیں اپنے گھروں کی دیواروں پر اِن کے نام کے بینر لگاتے ہیں اِن کی خاطر جیل جاتے ہیں کوڑے کھاتے ہیں اپنے کاروبار کا ستیاناس کر لیتے ہیں اپنی جمع پو نجی ان ڈرامے بازوں کے اشتہاروں پر لگاتے ہیں گلی محلوں میں اِن کے لیے لڑائی جھگڑے مول لیتے ہیں اپنی زندگیوں کے بہترین حصے اِن فراڈیوں کی نذر کر دیتے ہیں اپنی نوکریوںسے محروم ہو جاتے ہیں لڑائی جھگڑوں میں ہاتھ پا ئوں نظر سے محروم ہو جاتے ہیں کئی تو اپنی جان کا نظرانہ پیش کر دیتے ہیں۔
عوام کو بے وقوف بنا کر جب یہ بزرگ گدی نشین یا سیاستدان قتدار کے ایوانو ں پر براجمان ہو جاتے ہیں تو ایک لمحے کے یے اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے کہ کیا میںویسا ہی ہوں جیسا عوام مجھے سمجھ رہی ہے لیکن میرا ظاہر باطن ایک جیسا ہے دنیا میں تو اپنی چرب زبانی تقریر کے فن سے میں کامیاب ہو گیا ہوں کیا آخر ت میں میری چرب زبانی الفاظ کی جادوگری کام آئے گی کسی بزرگ نے کسی طوائف زادی سے پوچھا تجھے خالق کاذرہ بھی خوف نہیں ہے تو کس طرح بن سنور کر ہا ر سنگار کر کے خو بصورت بن کر لوگوں کو اپنے حسن کے جال میں پھنساتی ہے لوگوں کی لوٹ مار کر تی ہے تو طوائف زادی بولی جناب میں جیسی ہوں ویسی نظر آتی ہوں لیکن کیا آپ جیسے نظر آرہے ہیں اندر سے بھی ایسے ہی ہیں یہ کہہ کر بزرگ کو عرق ندامت کے سمندر میں غرق کر دیا آج کا انسان اپنے بولنے اور الفاظ کے جادو سے دنیا کو بے وقوف بنا ئے گا لیکن تصور کر یں وہ وقت جب کائنات کے اکلوتے وارث کے سامنے پیش ہونگے تو حق تعالیٰ پیر صاحب کے مریدوں کے سامنے اور لیڈر کے دیوانوں کے سامنے اُس کے اندر کا گند نکال کر رکھ دے گا اُس کے دعوئوں اور نعروں کی حقیقت عوام کے سامنے رکھ دے گا۔
کتنا ہولناک منظر ہو گا جب انسان کی لفظوں کی جادوگری سخن سازی تقویٰ طرازی اور سیاست بازی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی وہ کس منہ سے اپنے چاہنے والوں مریدوں کاسامنا کر ے گا جنہیں وہ دنیا میں بے وقوف بناکر آیا تھا جب ظاہر باطن خدا چہرے کے سارے نقاب سرکایا جا ئے گا باطن کے سارے بند راز کھولتا جا ئے گا اور نقاب سرکاتے ہو ئے دھتکارتے ہوئے اللہ کہے گا یہ دیکھ ۔ یہ غزالی زماں ، رازی دوراں ، جنید وقت ، شیخ الاسلام ، خطیب اسلام ،قائد عوام ‘محافظ جمہوریت ساری سخن سازی لفظوں کی جادوگری ہوا میں تحلیل ہو جائے گی ساری چالاکی عیاری کھل کر سامنے آجائے گی دنیا کی کامیاب زندگی ایک لمحے میں ناکامی کے اندھے درد ناک غار میں اُتر جائے گی پھر وہ منظر کتنا خو فناک ہو گا جب بڑے بڑے پیروں کے جب چیتھڑے بنا کر پرزے پرزے کر دئیے جائیں گے۔
جب الفاظ کے جادوگروں خطیبوں کی زبان کوآگ سے داغا جائے گا ‘کدھر جائیں گے فلسفے الفاظ کی جادوگری چالاکیاں عیاریاں پھرتیاں تصوف کے عظیم بزرگ جنید بغدادی فرمایا کر تے تھے ۔ میرے ماموں اور مرشد سری سقطی نے کئی بار اِس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میری مو ت بغداد سے باہر واقع ہو اور میں کسی اجنبی گائوں کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جا ئوں اور یہ میںاِس لیے چاہتا ہوں کہ میرے گناہوں کے بوجھ سے کہیں میری قبر مجھے قبول کر نے انکار نہ کر دے اور میں رسوا نہ ہو جائوں ۔ یہ الفاظ وقت کے کامل بزرگ کے ہیں جن کی پاکدامنی کی قسم ایک زمانہ کھا تا ہے ۔ روز محشر جب آخر کا پھندا گلے میں پڑے گا تو سارے راز انسان خو د ہی اگل دے گا۔