تحریر : ممتاز حیدر جمعیت علماء اسلام (ف) کی جانب سے منعقد کی جانیوالی تین روز ہ عالمی کانفرنس میں شرکت کیلئے امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد ابراہیم اور سعودی عرب کے وزیرمذہبی امور الشیخ صالح بن عزیز آل شیخ بھی پشاور پہنچ چکے ہیں۔امام کعبہ او ر سعودی وزیربرائے مذہبی امور کا گورنر کے پی کے اقبال ظفر جھگڑا ،وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور مولانا فضل الرحمان نے پرتپاک استقبال کیا۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری اور اکرم خان درانی بھی اس موقع پر موجود تھے جبکہ بحرین کے ممبر سینیٹ عادل عبدالرحمان بھی پشاور ایئرپورٹ پر موجود تھے۔اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے کہا ک امام کعبہ کی پاکستان آمد پوری قوم کیلئے باعث سعادت ہے، خوش قسمتی ہے کہ ہماری سرزمین پرحرمین شریفین کی اہم شخصیات آئی ہیں۔امام کعبہ 9 اپریل کو لاہور میں مرکزی جمعیت اہل حدیث مرکزی دفاتر کا دورہ بھی کریں گے جبکہ راوی روڈ میں ”اہل حدیث علما کنونشن ” سے بھی خطاب کریں گے۔امام حرم پاکستان میں امن ،محبت، اخوت، مساوات، انسانیت اور وحدانیت کا پیغام لے کر آئے ہیں۔امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب کی پاکستان آمد پراہل پاکستان ان کو دل کی گہرائیوں سے اھلاو سہلا مرحبا کہتے ہوئے استقبال کرتے ہیں۔
امام محترم کی آمد سے پاکستانی فضا ء معطرو منور ہور ہی ہے۔یہاں کی فضاء میں یقیناًاتحاد و یگانگت ،امن و سکون کی باد نسیم چلے گی۔وطن عزیز کے علماء کرام میں امام حرم کی آمد سے خوشی کی لہردوڑ رہی ہے۔مدارس کے طلباء ، ائمہ کرام اورخواص و عوام میں ایک نیاجذبہ انگڑائیاں لے رہا ہے اور یہ کیوں نہ ہو امام حرم کی نسبت ایسے منبرو محراب سے ہے جہاں سے اسلام کی کرنیں طلوع ہوئیں، جہاں سے اسلام کا چشمہ پھوٹا اور سارے عالم میں پھیل گیا۔یہ وہ مقام ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ، تابعین و تبع تابعین نے امامت کے فرائض انجام دیئے۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے سارے عالم میں امن کا پیغام دیا جاتاہے۔علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روئے زمین کے تمام شہروں پر مکہ معظمہ کو جو فضیلت ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں۔زمانہ گواہ ہے کہ اس حال میں اس قدر لاتعداد مخلوق پورے عالم میں مکہ معظمہ کے سوا کہیں بھی جمع نہیں ہوتی اور انشاء اللہ قیامت تک ہر سال اسی جوش و خروش ، جذبہ اور ولولہ کے ساتھ فرزندانِ توحید یہاں جمع ہوتے رہیں گے۔
مکہ المکرمہ کے امام فضیلت الشیخ ڈاکٹر شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب اپنی سریلی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کی وجہ سے سارے عالم میں مشہور و معروف ہیں۔آپ کا اندازِ تلاوت بہت ہی سادہ مگر پر کیف ہے۔بالکل آہستہ آہستہ سریلی آواز میں بڑے ہی اطمینان سے نماز میں قرآن کی تلاوت فرماتے ہیں۔ امام حرم ڈاکٹر شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب سعودی عرب کے مشہور قبیلہ بنی تمیم کے طے سے تعلق رکھتے ہیں۔الشیخ صالح کا خاندان علماء ، حفاظ اور قضا کے خاندان سے مشہور ہے۔الشیخ نے ابتدائیہ اور ثانویہ کی تعلیم سعودی عرب کے شہر ریاض میں مکمل کی، اسی طرح موصوف نے کم عمری ہی میں حفظ قرآن کریم کی تکمیل ریاض کے ایک مدرسہ میں کی، اور پھر قراءت سبعہ عشرہ کی تعلیم حاصل کی، آپ کے اساتذہ میں ماہرتجوید وقرآن الشیخ محمود عمر سکر، ماہر تجوید شیخ صابر حسن ابوسلیمان،الشیخ عبدالحلیم صابر عبدالرزاق اور الشیخ قاری عبدالمالک ابومحمد شامل ہیں۔حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد سال 1414ھ میں الشیخ صالح بن محمد ابراہیم نے ریاض کے شریعہ کالج میں داخلہ لیا، اس کالج سے بی اے کی تکمیل کے بعد ہائیر انسٹی ٹیوٹ آف جسٹس سے سال 1417ھ میں اے ایم کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، سعودی عرب کے ولی عہد نے ملک میں بین الاقوامی قانون کے ماہرین کی ضرورت کے پیش نظر تین علماء دین کی برطانیہ سے بین الاقوامی دستور میں پی ایچ ڈی کے لئے خصوصی منظوری دی تھی جن میں الشیخ صالح بھی شامل تھے۔
الشیخ نے علم حدیث وفقہ ماہرین اور مشاھیر علماء ومشائخ سے حاصل کیا، ان کے اساتذہ میں ان کے والد محترم الشیخ محمد بن ابراہیم بن محمد آل طالب،آپ کے داداالشیخ ابراہیم بن محمد بن ناصر آل طالب،مفتی عام مملکت سعودی عرب الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز، الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الغدیان، الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن بن جبرین اور مملکت سعودی عرب میں وزیراسلامی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ وغیرہ مشاھیر علماء شامل ہیں۔ڈاکٹر الشیخ صالح نے سپریم کورٹ سے عملی زندگی کا آغاز کیا، اور تین برس وہاں خدمات سرانجام دیں، اس دوران انھوں نے الشیخ عبدالعزیز بن ابراہیم القاسم اورطائف کورٹ کے چیف جسٹس الشیخ عبدالالہ بن عبدالعزیز الفریان سے تربیت حاصل کی اسی طرح آپ نے ضمانت اور نکاح وغیرہ امور سے متعلق کورٹ کے چیف جسٹس الشیخ سعود المعجب سے بھی تربیت حاصل کی۔الشیخ صالح بن محمد ابراھیم نے 17 برس کی عمر ہی سے ریاض شہر کے سویدی محلے میں واقع مسجد علیاء آل شیخ سے امامت کا آغاز کیا تھا۔سال 1418ھ میں سعودی عرب کے تربہ علاقے میں قاضی مقرر ہوئے، جہاں آپ نے دو برس تک خدمات انجام دیں، پھر سال 1420 ھ میں رابغ کے علاقے میں قاضی متعین ہوئے اور یہاں آپ نے دو برس چھ ماہ خدمات انجام دیں اور پھر مکہ مکرمہ کے سپریم کورٹ میں قاضی مقرر ہوئے اور ہنوز اسی عہدے پر موجود ہے۔28شعبان1423ہجری کوالشیخ صالح کے نام مسجد حرام میں امام کی تعیین کا شاہی فرمان جاری ہوا، اور اسی تاریخ کی نماز عصر سے الشیخ صالح نے حرم پاک میں امامت کی، یہ رمضان المبارک کا پہلا دن تھا۔اور 20شعبان1430ھ کو شاہی فرمان کی رو سے الشیخ صالح مسجد حرام میں مدرس مقرر ہوئے۔ڈاکٹر الشیخ صالح بن ابراہیم سعودی عرب کے علاقے رابغ میں جاری جمعیہ تحفیظ القرآن الکریم کے چیرمین ہیں، اس کی بنیاد الشیخ نے سال 1420 ھ میں رکھی تھی۔ اسی طرح آپ مکہ مکرمہ کی منشیات کے خاتمے سے متعلق کمیٹی کے سربراہ ہیں۔آپ وزارت صحت کے زیرنگرانی میڈیکل سوسائٹی کے رکن ہیں۔
اس کے علاوہ الشیخ موصوف مملکت سعودی سمیت دنیا بھر کے مختلف خیراتی اور تعلیمی اداروں کے سربراہ اور رکن ہیں۔ الشیخ صالح حرم میں امامت کے ساتھ ساتھ ایک متحرک داعی اور مربی ہیں، آپ نے سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں دینی اداروں کے قیام کی کوشش کی، رابغ شہر میں آپ کی کوششوں کے نتیجے میں جمعیہ تحفیظ القرآن کا آغاز ہوا تھا ، یہ ادارہ آج مختلف شعبوں پر مشتمل ہیں، جہاں جالیات کی تربیت سمیت افتاء وارشاد کے شعبے عالمی سطح پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔الشیخ نے سال 1415 ھ میں امریکا کا دعوتی سفر کیا، سال 1422ھ میں ہالینڈ کے شہر لاہائی میں منعقدہ بین الاقوامی عدالت کے زیرنگرانی تجارتی استحکام سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی، مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں عرب لیگ کے زیرسرپرستی منعقدہ الیکٹرانک تجارت سے متعلق منعقدہ کانفرنس میں شرکت کی، ان کے علاوہ قانون سے متعلق متعدد کانفرنسوں اور سیمناروں میں شریک ہوئے۔الشیخ نے متعدد اصلاحی اورتربیتی موضوعات پر کتابیں تحریر کیں، جن میں آپ کی ایک کتاب ”تہذیب وثقافت کی اشاعت میں مسجدحرام کا کردار” عربی زبان میں منظرعام پر آئی،اسی طرح الشیخ نے ایم اے میں ”احکام حدیث العہد بالاسلام ” کے عنوان پر مقالہ تحریر کیا تھا،تاہم اس کی طباعت نہیں ہوئی، اس کے علاوہ الشیخ نے اجتہاد، تقلید اور نفاق جیسے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔امام حرم کے ہمراہ شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ سعودی عرب میں اسلامی امور اور اوقاف کے وزیر بھی پاکستان آئے ہیں۔وہ1378ھ میں ریاض میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی سے مکمل کی۔
تعلیم کی تکمیل کے بعد وہامام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاد رہے۔بعد ازاں انہیں1416 ھ میںاسلامی امور کے نائب وزیر اوقاف مقرر کیا گیا تھا۔شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کابینہ میں تبدیلیاں کیں تو شیخ صالح بن عبدالعزیز آل شیخ کو اسلامی امور کیا وزیر بنایا گیا۔شیخ پاکستان کا ماضی میں بھی کامیاب دورہ کر چکے ہیں جس میں انہوں نے حکومتی عہدیداروں سمیت مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔خیبر پختونخواہ کے صوبائی وزیر شاہ فرمان نے پشاور میں امام کعبہ سے ملاقات کی اور اْنھیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی طرف سے خوش آمدید کہا۔ انہوں نے امام کعبہ سے خیبر پختونخوا حکومت کے اسلامی قوانین پر تبادلہ خیال کیا اور کہا کہ انکی پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا آمد ہم سب کے لئے خوشی کا باعث ہے۔
شاہ فرمان نے مستقبل میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے امام کعبہ سے رہنمائی طلب کی۔ ترجمان نے حکومت کی طرف سے امام کعبہ کے دورے کے دوران تفصیلی ملاقات کے لئے وقت بھی مانگا تاکہ صوبے میں اسلامی قوانین کے نفاذ اور اسلامی اقدامات کے فروغ کے لئے انکی رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے صوبے میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں جن میں نجی سودی کاروبار پر پابندی سمیت دینی مدارس کے لئے خصوصی فنڈ کے اجراء ، نیز پہلی بار ختم نبوت اور سیر ت النبیۖ کے مضامین کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے اور پرائمری سکولوں کی سطح پر ناظرہ قرآن جبکہ انٹرمیڈیٹ تک قرآن با ترجمہ پڑھانے سمیت اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے دیگراقدامات شامل ہیں۔امام حرم ، شیخ العرب و العجم ڈاکٹر شیخ صالح بن محمد آل طالب حفظہ اللہ صرف مسجد حرم کے امام نہیں بلکہ سارے عالم کے امام ہیں آپ کی امامت و اقتداء میں سارے عالم کے لوگ چاہے وہ گورے ہوں یا کالے ، عربی ہوں یا عجمی، مالکی ہوں یا شافعی ، حنبلی ہوں یا حنفی سبھی نماز ادا کرتے ہیں۔امام محترم کا تعلق ایسے شہر سے ہے جس کی شان میں اتنی آیات قرآنی نازل کی گئی ہیں کہ کسی اور شہر کی تعریف میں اتنی آیتیں نہیں نازل کی گئیں۔امام حرم کی پاکستان آمد پاک سعودی بہترین تعلقات کا مظہر ہیں۔انکے دورے سے دنیا بھر میں امن کا پیغام جائے گا۔