اللیبی کی گرفتاری کا بدلہ لیں گے، عسکریت پسندوں کی دھمکی

Militants

Militants

تریپولی (جیوڈیسک) لیبیا کے عسکریت پسندوں نے اللیبی کی گرفتاری کیخلاف امریکی شہریوں کے اغوا، گیس پائپ لائن اڑانے اور ہوائی، بحری جہازوں پر حملوں کی دھمکی دی ہے۔ الیبیا کے عسکریت پسندوں نے شہریوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے باشندوں کو اغوا کریں تا کہ اغوا شدہ مغربی باشندوں کی رہائی کو اللیبی کی رہائی کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ لیبیا کے جہادیوں نے اپنے پیغام میں عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ یورپ کو برآمد کی جانے والی گیس کی پائپ لائن کو بھی تباہ کر دیں اور بحری اور ہوائی جہازوں پر بھی حملے کریں۔

سوشل ذرائع سپر پوسٹ کئے گئے پیغام میں ایک اور گروپ نے القاعدہ کے لیڈر اللیبی کی گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے۔ اس پیغام میں لیبیا کے سیاسی لیڈروں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہیں اللیبی کی گرفتاری کا علم پہلے سے تھا جبکہ لیبیا کے وزیراعظم علی زیدان نے گزشتہ ویک اینڈ پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی حکومت نے امریکا سے اس چھاپہ مار کارروائی کی وضاحت طلب کی ہے۔

عسکریت پسندوں کے پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ لیبیا اب بھی کفر کی جگہ ہے جہاں حکمرانی شریعہ کی بجائے کسی اور ہی قوت کی ہے۔ اس لیے اس ملک میں لادینوں کے لیے کوئی تحفظ نہیں ہے۔ انقلابیوں کے گروپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کے خلاف لڑے گا جو ان کے ملک سے غداری کر رہا ہے اور اللیبی کی گرفتاری کے سازشی عمل میں ملوث ہے۔ واضع رہے کہ معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم عسکریت پسندوں، بشمول القاعدہ سے قریبی رابطہ رکھنے والے عسکریت پسند گروپوں نے اس سرزمین کو جنگجوں کے اڈے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

دوسری جانب لیبیا کی حکومت نے امریکی سفیر دیبورا جونز کو لیبیا کی شہریت کے حامل القاعدہ کمانڈر اللیبی کی گرفتاری کے لئے امریکی سپیشل فورس کے آپریشن کا نوٹس لیتے ہوئے طلب کر لیا ہے۔ لیبیا کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے یہ طلبی وزارت انصاف کی طرف سے کی گئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق طرابلس سے گرفتار کئے گئے بعد القاعدہ کمانڈر کو بحیرہ روم میں موجود امریکی بحریہ کے جہاز پر منتقل کر کے زیر تفتیش رکھا گیا ہے۔ امریکی تفتیش کار اللیبی سے 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں پر ہونے والے حملوں کے بارے تفتیش کر رہے ہے۔ واضح رہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں 224 ہلاکتیں ہوئِیں تھیں۔ ان واقعات کے حوالے سے ابو انس امریکا کو انتہائی مطلوب افراد میں سر فہرست تھا۔