کراچی (جیوڈیسک) محمد رفیق مانگٹ امریکی صدر بارک اوباما کے قریبی ساتھی اور مغربی ایشیائی امور کے ماہر سابق سی آئی اے اہلکا ربروس ریڈل نے وزیر اعظم نواز شریف القاعدہ کے خلاف جنگ میں اپنے پیش رو آصف علی زرداری سے زیادہ گرم جوش نظر نہیں آتے۔ زرداری القاعدہ کو ایک خطرہ سمجھتے تھے، وہ جانتے تھے کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے میں القاعدہ نے مدد کی تھی۔ 1997 اور 1999 میں بل کلنٹن کی بار بار درخواست کے باوجود نواز شریف نے اسامہ کو پکڑنے اور اس کے انفراا سٹرکچر کو تباہ کرنے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ 2013 کے انتخابات میں بھی عسکری تنظیموں نے ن لیگ کی انتخابی ریلیوں یا ان کے امیدواروں پر حملہ نہیں کیا، جب کہ دیگر جماعتیں مسلسل ان کے حملوں کی زد میں رہیں۔
جریدے کے مطابق گزشتہ برسوں میں امریکا نے افغانستان سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف دوسری جنگ لڑی، اسامہ کی ہلاکت اسی دوسری جنگ کا حصہ تھی۔ پاکستان میں القاعدہ کی زیادہ تر کارروائیوں کو ڈرونز حملوں سے روکا گیا۔ اوباما کے عہدہ صدارت سے اب تک پاکستان میں 340 مہلک مشن انجام دیئے گئے۔ گزشتہ برس دو درجن سے زائد ڈرون حملے کئے گئے۔ افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلاء کے بعد ڈرونز حملے مشکل ہو جائیں گے۔ رواں برس امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔ تاہم یہ جنگ افغانیوں یا پاکستانیوں کیلئے ختم نہیں ہو گی۔
پاکستان کے خلاف زہر افشانی کر تے ہوئے مضمون نگار لکھتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کا حامی اور سرپرست رہے گا۔ پاکستان طالبان اور اس کے جنگجووٴں کی تربیت اور بھرتی کرنے کے لئے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے اور ملا عمر سمیت اس کے رہنماوٴں کی حفاظت کرتا ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس سروس طالبان کو تربیت اور فنڈ میں مدد دیتی ہے۔ کرزئی سے باہمی سیکورٹی معاہدے پر دستخط کیلئے امریکا کے پہلے سے ہی مذاکرات جاری ہیں۔ اگر افغانستان سے کوئی باہمی سیکورٹی معاہدہ نہ ہوا تو پاکستان کے اندر امریکی انسداد دہشت گردی مشن منظم کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہو جائے گا، آسانی سے کابل اس کی اجازت نہیں دے گا۔
افغانستان میں بیس کے بغیر پاکستان میں ایبٹ آباد جیسے حملے بہت مشکل ہو جائیں گے۔ ایسے حملوں کے لئے سیکڑوں میل دور بحیرہ عرب سے جنگی بیڑے سے حملے کرنے ہوں گے۔ اگر اسامہ کی ہلاکت کا مشن بھی بحیرہ عرب سے کیا جاتا تو 1980 میں ایرانی یرغمالیوں کو بچانے کی طرح ناکام ہو جاتا۔ 2001 ء میں ملا عمر کے تختہ الٹنے کے بعد القاعدہ نے پاکستان کو نیا بیس بنایا۔ اگر پاکستان میں القاعدہ پر دباوٴ میں کمی کی گئی تو پاکستان میں موجود جہادی ڈھانچے کی وجہ سے وہ تیزی سے منظم ہو جائیں گے۔ ڈرون حملوں میں کمی سے لشکر طیبہ اور پاکستانی طالبان القاعدہ کو مضبوط کرنے میں مدد دیں گے۔
طویل مدت کیلئے امریکا کوپاکستان کی طرف زیادہ حقیقت پسندانہ اور سخت پالیسی کی ضرورت ہو گی۔ امریکا پاکستانی حکومت اور فوج کے ساتھ کام کرے لیکن کم توقعات کے ساتھ۔ ان پاکستانیوں کی مدد کی جائے جو انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن معجزات کی توقع نہ کی جائے۔ پاکستانیوں کی مدد کے ساتھ یا بغیر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ مضمون نگار لکھتاہے کہ گزشتہ برس عراق میں القاعدہ کی قابل ذکر واپسی ہوئی۔
تمام امریکی افواج اور نیٹو کی زیر قیادت ایساف افغانستان سے حتمی انخلاء کرنے جا رہی ہیں۔ کیا جنوبی ایشیاء میں بھی القاعدہ کا از سرنو احیاء ہوگا۔ نائن الیون سے قبل عراق میں القاعدہ کا وجود نہیں تھا۔جب اسامہ نے بش اورڈک چینی کو 2003 میں عراق میں جارحیت کی منصوبہ کرتے دیکھا تو عراق میں منتقل ہو گئے۔ اسامہ نے ایک جال بنا اور 2006 میں القاعدہ نے عراق کو خانہ جنگی میں ڈبو دیا شعیہ سنی کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا، امریکی فورسز نے عراق کو مکمل تباہی سے بچایا اب دوبارہ عراق میں القاعدہ اپنے پاوٴں جما چکی ہے۔ یہی سانحہ افغانستان اور پاکستان میں دہرایا جا سکتا ہے؟