کشمیر (جیوڈیسک) بھارتی فوج اور حکومت کو نشانہ بنانے اور کشمیر پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سربراہ کے حالیہ بیان پر نئی دہلی حکومت نے کہا ہے ایسی دھمکیوں کو سنجیدہ نہيں ليا جاتا۔
القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی دھمکی کے بارے ميں ذرائع ابلاغ کی طرف سے پوچھے گئے سوال پر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا، ”مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں ایسی دھمکیوں کو اتنا سنجیدگی سے لینا چاہيے۔ اس طرح کی دھمکیاں ہم سنتے رہتے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ پہلے بھی ایسی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کردیں گے۔“
خیال رہے کہ دو روز قبل جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں ایمن الظواہری نے اپنے حامیوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا، ”کشمیر میں سرگرم مجاہدین اپنی پوری توجہ بھارتی افواج اور حکومت پر مسلسل حملے کرنے پر مرکوز کر دیں تاکہ معیشت کو نقصان پہنچے اور بھارت کی افرادی قوت نیز اہم تنصیبات اور ساز وسامان کا مسلسل نقصان ہوتا رہے۔“
نئی دہلی حکومت نے اس دھمکی کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج ملک کی سالمیت اور خود مختاری کی حفاظت کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور ہمیشہ تیار ہے۔ رویش کمار کا کہنا تھا، ”یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ہماری سکيورٹی فورسز قابل اور باصلاحیت ہيں اور وہ ہتھیاروں اور ساز و سامان سے اتنی لیس ہیں کہ اس طرح کی دھمکیوں سے گھبرانے والی نہیں ہیں۔ وہ ہمارے جان و مال کا تحفظ، ملکی سلامتی اور خود مختاری کی حفاظت کرنے کا پورا دم خم رکھتی ہیں۔“
بھارت میں یہ عام رائے ہے کہ ایمن الظواہری کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ جب وزارت خارجہ کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا ظواہری پاکستان میں ہيں، تو انہوں نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل ایمن الظواہری نے ’کشمیر کو نہ بھلائیں‘ کے عنوان سے جاری اپنی مذکورہ ویڈیو میں کہا ہے، ”کشمیر کی لڑائی کوئی علیحدہ لڑائی نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کے خلاف مسلمانوں کے جہاد کا حصہ ہے۔“ الظواہری نے اپنے علماء کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، ’’مسلمانوں کو بتائیں کہ کشمیر، فلپائن، وسطی ایشیاء، عراق، شام، صومالیہ، جزیرہ نما عرب اور ترکستان میں جہاد کی حمایت کرنا، ہر مسلمان کی انفرادی ذمہ داری ہے اور یہ کام اس وقت تک جاری رکھا جانا چاہيے جب تک ان علاقوں پر قابض ’کافروں‘ کو مسلمانوں کی سرزمین سے پوری قوت کے ساتھ نکال باہر نہ کر دیا جائے۔“ ایمن ظواہری نے اپنے بیان میں کشمیر میں مساجد، بازاروں اور عوامی اجتماعات کو نشانہ بنانے سے منع کیا ہے۔
بھارتی وزارت داخلہ کے ایک افسر کا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ دراصل کشمیر میں دہشت گردوں کے خلاف حالیہ کارروائیوں سے دہشت گردانہ حملوں میں واضح کمی اور دہشت گردوں کی ہلاکت میں واضح اضافہ ہوا ہے جس سے پریشان ہوکر یہ ویڈیو جاری کی گئی ہے۔ افسرکا مزید کہنا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ الظواہری کے بھارت مخالف بیانات کا کشمیری نوجوانوں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے ہی تقریباً 5500 کشمیری نوجوان بھارتی فوج میں شامل ہونے کے ليے آرمی کیمپ پہنچے تھے۔
ایمن الظواہری کی بھارت مخالف ویڈیو کے حوالے سے دفاعی تجزیہ نگار اور انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ مینجمنٹ کے ڈائریکٹر اجے ساہنی کا کہنا تھا، ”الظواہری کا تازہ بیان کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اپنے آپ میں غیر معمولی ہے۔ گوکہ دہشت گردی کے کسی بھی خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن کشمیر کے موجودہ سیاسی حالات میں الظواہری کا یہ بیان تمام کشمیریوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ اس بیان سے یہ تاثر پیدا ہوسکتا ہے کہ تمام کشمیری عالمی جہادی تحریک کے تئیں ہمدردی رکھتے ہیں۔“
اجے ساہنی کا مزید کہنا تھا، ”جموں و کشمیر یا بھارت میں کسی بھی جگہ اسلامی دہشت گردی صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب اسے پاکستان کی حمایت حاصل ہو۔ القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ جیسے عالمی جہادی گروپ بھی اب تک بھارت میں اپنے قدم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں کیوں کہ بھارت کی انٹيلیجنس ایجنسیوں نے ایسی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں پر سخت نگاہ رکھی ہوئی ہے۔“